|
توبہ شکن
(بانو قدسیہ)
اپنے بوائی پھٹے پیروں کو نئی چپل میں پھنساتے ہوئے اس نے ایک نظر کار والے پر
ڈالی۔
وہ اپالو کے بت کی طرح وجیہہ تھا۔
کنپٹیوں کیے قریب پہلے چند سفید بالوں نے اس کی وجاہت پر رعب حسن کی مہر بھی لگا دی
تھی۔ وقت نے اس سینٹ کا کچھ نہ بگاڑا تھا۔ وہ اسی طرح محفوظ تھا جیسے ابھی کولڈ
سٹوریج سے نکلا ہو۔
بی بی نے اپنے کیکر کے چھال جیسے ہاتھ دیکھے....
پیٹ پر نظر ڈالی جو چھاگل میں بدل چکا تھا....
اور ان نظروں کو جھکا لیا جن میں اب کتیرہ گوند کی بجھی بجھی سی چمک تھی۔
جمالی ملک اس کے پاس سے گزرا لیکن اس کی نظروں میں پہچان کی گرمی نہ سلگی۔
واپسی پر وہ پروفیسر صاحب سے آنکھیں چرا کر بستر پر لیٹ گئی اور آنسوؤں کا رکا
ہوا سیلاب اس کی آنکھوں سے بہہ نکلا۔
پروفیسر صاحب نے بہت پوچھا لیکن وہ انہیں کیا بتاتی کہ درخت چاہے کتنا ہی اونچا
کیوں نہ ہو جائے اس کی جڑیں ہمیشہ زمین کو ہوس سے کریدتی رہتی ہیں۔ وہ انہیں کیا
سمجھاتی کہ آئیڈیلز کچھ مانگے کا کپڑا نہیں جو پہن لیا جائے۔
وہ انہیں کیا کہتی کہ عورت کیسے توقعات وابستہ کرتی ہے....
اور ....
یہ توقعات کا محل کیونکہ ٹوٹتا ہے؟
وہ غریب پروفیسر صاحب کو کیا سمجھاتی !
ایسی باتیں تو غالباً جمالی ملک بھی بھول چکا تھا۔
|