kitab ghar website logo





Don't Like Unicode ?  Read in Nastaleeq from Image Pages or Download the PDF File

 

Kitaabghar Blog:
Kitaabghar launched a Blog for discussion of urdu books available online on kitaabghar.com or any other website. Readers can also share views and reviews of books of their choice and promote their favourite writers. This is not limited to urdu books.



وہ بڈھا

 

(راجندر سنگھ بیدی)

 

 


”کئے.... میںنے سیدھی کھڑی ہو کر کہا ۔
اس بڈھے نے پھر مجھے ایک نظر دیکھا، لیکن میرے جسم میں سنسناہٹ نہ دوڑی، کیوں کہ وہ بڈھا تھا۔ پھر اس کے چہرے سے بھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں معلوم ہوتی تھی، ورنہ لوگ تو کہتے ہیں کہ بڈھے بڑے ٹھرکی ہوتے ہیں۔
”تم جارہی تھیں۔“ اس نے پھر بات شروع کی ”اور تمہاری یہ ناگن، دایاں پاؤںاٹھنے پر بائیں طرف اور بایاں پاؤں اٹھنے پر دائیں طرف جھوم رہی تھی....“
میں ایک دم کانشس ہو گئی۔ میں نے اپنی چوٹی کی طرف دیکھا جو اس وقت نہ جانے کیسے سامنے چلی آئی تھی۔ میں نے بغیر کسی اراد ے کے سر کو جھٹکا دیا اور ناگن، جیسے پھنکارتی ہوئی پھر پیچھے چلی گئی۔ بڈھا کہے جا رہا تھا”میں نے گاڑی آہستہ کرلی اور پیچھے سے تمہیں دیکھتا رہا....“
اور آخر وہ بڈھا ایک دم بولا” تم بہت خوبصورت لڑکی ہو۔“
میرے بدن میں جیسے کوئی تکلف پیدا ہو گیا اور میں کروٹ کروٹ بدن چرانے لگی۔ بڈھا منتر مگدھ مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نہیں جانتی تھی اس کی بات کا کیا جواب دوں؟ میں نے سنا ہے، باہر کے دیسوں میںکسی لڑکی کو کوئی ایسی بات کہہ دے تو وہ بہت خوش ہوتی ہے، شکریہ ادا کرتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں کوئی رواج نہیں الٹا ہمیں آگ لگ جاتی ہے۔ ہم کیسی بھی ہیں، کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ہمیں ایسی نظروں سے دیکھے؟ اور وہ بھی یوں....سڑک کے کنارے، گاڑی روک کر۔ بدیسی لڑکیوں کاکیا ہے۔ وہ تو بڈھوں کو پسند کرتی ہیں۔ اٹھارہ بیس کی لڑکی ساٹھ ستر کے بوڑھے سے شادی کرلیتی ہے۔
میں نے سوچا، یہ بڈھا آخر چاہتا کیاہے؟
”میں اس خوبصورتی کی بات نہیں کرتا۔ “ وہ بولا ”جسے عام آدمی خوبصورتی کہتے ہیں مثلاً وہ گورے رنگ کو اچھا سمجھتے ہیں۔“
مجھے جھر جھری سی آئی۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں میرا رنگ کوئی اتنا گورا بھی نہیں سانولا بھی نہیں بس....بیچ کاہے۔ میں نے تو .... میں تو شرما گئی۔
”آپ؟ “ میں نے کہا اور پھر آگے پیچھے دیکھنے لگی کہ کوئی دیکھ تونہیں رہا؟
بس دندناتی ہوئی آئی اور یوں پاس سے گزر گئی کہ اس کے اور کار کے درمیان بس انچ بھر کا فاصلہ رہ گیا۔ لیکن وہ بڈھا دنیا کی ہر چیز سے بے خبر تھا ۔ مرناتو آخر ہر ایک کو ہے لیکن وہ اس وقت کی بے کار اور فضول موت سے بھی بے خبر تھا۔ جانے کن دنیاؤں میں کھویا ہوا تھا وہ؟
دو تین گھاٹی ، راما لوگ وہاں سے گزرے۔ وہ کسی نوکری پگار کے بارے میں جھگڑا کرتے جا رہے تھے۔ ان کا شور جو ایسٹر کی گھنٹیوں میں گم ہوگیا۔ دائیں طرف کے مکان کی بالکنی پر ایک دبلی سی عورت اپنے بالوں میں کنگھی کرتی ہوئی آئی اور ایک بڑا سا گچھا بالوں کا کنگھی میں سے نکال کر نیچے پھینکتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔ کسی نے خیال بھی نہ کیا کہ سڑک کے کنارے میرے اور اس بوڑھے کے درمیان کیا معاملہ چل رہا ہے۔ شاید اس لئے کہ لوگ اسے میرا کوئی بڑا سمجھتے تھے ۔شاید اس لئے کہ لوگ اسے میرا کوئی بڑا سمجھتے تھے۔ بوڑھا کہتا رہا”تمہارا یہ سنولایا ہوا، کندنی رنگ، یہ گٹھا ہوا بدن ہمارے ملک میں ہر لڑکی کا ہونا چاہیے۔ اورپھر یکا یک بولا”تمہاری شادی تو نہیں ہوئی؟“
”نہیں“۔ میں نے جواب دیا۔
”کرنا بھی تو کسی گبرو جوان سے“۔
”جی“
اب خون میرے چہرے تک ابل ابل کر آنے لگاتھا۔ آپ سوچئے آنا چاہیے تھے یا نہیں؟

 

Go to Page:

*    *    *

Woh Budha by Rajinder Singh Bedi, well known urdu short story writer and novelist. He also wrote many film scripts for indian cinema (bollywood)

Go to Page :

Download the PDF version for Offline Reading.(Downloads )

(use right mouse button and choose "save target as" OR "save link as")

A PDF Reader Software (Acrobat OR Foxit PDF Reader) is needed for view and read these Digital PDF E-Books.

Click on the image below to download Adobe Acrobat Reader 5.0


[ Link Us ]      [ Contact Us ]      [ FAQs ]      [ Home ]      [ FB Group ]      [ kitaabghar.org ]   [ Search ]      [ About Us ]


Site Designed in Grey Scale (B & W Theme)