|
وہ بڈھا
(راجندر سنگھ بیدی)
لیکن
اس سے پہلے کہ میں اس بڈھے کو کچھ کہتی اس نے ایک نئی بات شروع کردی۔
”تم جانتی ہو، آج کل یہاں چور آئے ہوئے ہیں؟“
”چور؟“ میں نے کہا ”کیسے چور“۔
”جو بچوں کو چرا کر لے جاتے ہیں.... انہیں بے ہوش کر کے ایک گھٹڑ ی میں ڈال لیتے
ہیں۔ ایک وقت میں چار چار پانچ پانچ“۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ میں نے کہا بھی تو صرف اتنا ”تو؟ میرا مطلب ہے مجھے.... میرا
اس بات سے کیا تعلق ؟“
اس بڈھے نے کمر سے نیچے میری طرف دیکھا اور بولا”دیکھنا کہیں پولیس تمہیں پکڑ کر نہ
لے جائے۔“
اور اس کے بعد اس بڈھے نے ہاتھ ہوا میں لہرایا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے چلا گیا۔ میں
بے حد حیران کھڑ ی تھی.... چور....گھٹڑی، جس میں چار چار پانچ پانچ بچے.... جب ہی
میں نے خود بھی اپنے نیچے کی طرف دیکھا اور اس کی بات سمجھ گئی۔ میں ایک دم جل
اٹھی.... پاجی، کمینہ شرم نہ آئی اسے؟ میں اس کی پوتی نہیں تو بیٹی کی عمر کی تو
ہوں ہی۔ اور یہ مجھ سے ایسی باتیں کر گیا، جو لوگ بدیس میں بھی نہیں کرتے۔ اسے حق
کیا تھا کہ ایک لڑکی کو سڑک کے کنارے کھڑی کرلے اور ایسی باتیں کرے ایک عزت والی
لڑکی سے۔ ایسی باتیں کرنے کی اسے ہمت کیسے ہوئی؟ آخر کیا تھا مجھ میں؟ یہ سب اس نے
مجھ سے ہی کیوں کہا؟ بے عزتی کے احساس سے میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے....میں کیا
ایک اچھے گھر کی لڑکی دکھا ئی نہیں دیتی؟ میں نے لباس بھی ایسا نہیں پہنا جو بازاری
قسم کا ہو قمیص البتہ فٹ تھی، جیسی عام لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ اور نیچے شلوار۔ کیوں یہ
ایسا کیوں ہوا؟ ایسے کو تو پکڑ کر مارنا اور مار مار کر سور بنا دینا چاہیے۔پولیس
میں اس کی رپٹ کرنی چاہیے۔ آخر کوئی تک ہے؟ اس کی گاڑی کا نمبر؟ ....مگر جب تک گاڑی
موڑ پر نظروں سے اوجھل ہوچکی تھی۔ میں بھی کتنی مورکھ ہوں جو نمبر بھی نہیں
لیا۔میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔وقت پر دماغ کبھی کام نہیں
کرتا، بعد میں یاد آتا ہے تو خود ہی سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ میں نے سائیکالوجی کی
کتاب میں پڑھا ہے، ایسی حرکت وہی لوگ کرتے ہیں جودوسروں کی عزت بھی کرتے ہیں اور
اپنی بھی۔ اسی لئے مجھے وقت پر نمبر لینا بھی یادنہ آیا۔ میں رونکھی سی ہو گئی۔
سامنے سے پودار کالج کے کچھ لڑکے گاتے، سیٹیاں بجاتے ہوئے گزر گئے۔ انہوں نے تو ایک
نظر بھی میر طرف نہ دیکھا....مگر یہ بڈھا؟!
میں دراصل دادر اون کے گولے خریدنے جا رہی تھی۔ میرا فرسٹ کزن بیگل سویڈن میں تھا،
جہاں بہت سردی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ میں کوئی آٹھ پلائی کی اون کا سویٹر بن کر
اسے بھیج دوں۔ کزن ہونے کے ناطے وہ میرا بھائی تھا، لیکن تھا بدمعاش۔ اس نے
لکھا”تمہارے ہاتھ کا بنا ہوا سویٹر بدن پر رہے گا تو سردی نہیں لگے گی!“ مجھے گھر
میں اور کوئی کا بھی تو نہ تھا۔ بی اے پاس کر چکی تھی اور پاپا کہتے تھے”آگے پڑھائی
سے کوئی فائدہ نہیں۔ہاں اگر کسی لڑکی کو پروفیشن میں جانا ہو تو ٹھیک ہے لیکن اگر
ہر ہندوستانی لڑکی کی شادی ہی اس کا پروفیشن ہے تو پھر آگے پڑھنے سے کیا فائدہ؟“ اس
لئے میں گھر میں ہی رہتی اور آلتو فالتو کام کرتی تھی، جیسے سویٹر بننا یا بھیا اور
بھابھی بہت رومانٹک ہو جائیں اور سینما کا پرو گرام بنالیں تو پیچھے ان کی بچی بندو
کو سنبھالنا، اس کے گیلے کپڑوں، پوتڑوں کو دھونا سکھانا وغیرہ۔ لیکن بڈھے سے اس
مڈبھیڑ کے بعد میں جیسے ہل ہی نہ سکی۔میرے پاؤں میں جیسے کسی نے سیسہ بھر دیا۔
پتہ نہیں آگے چل کر کیا ہو؟ اور بس میں گھر لوٹ آئی....
اتنی جلدی گھرلوٹتے دیکھ کر ماں حیران رہ گئی۔ اس نے سمجھا کہ میں اون کے گولے خرید
بھی لائی ہوں۔ لیکن میں نے قریب قریب روتے ہوئے اسے ساری بات کہہ سنائی۔ اگر گول کر
گئی تو وہ چار چار پانچ پانچ بچوں والی بات۔ کچھ ایسی باتیں بھی ہتی ہیں جو بیٹی
ماں سے بھی نہیں کہہ سکتی۔ ماں کو بڑا غصہ آیا اور وہ ہوا میں گالیاں دینے لگی۔
عورتوں کی گالیاں جن سے مردوں کا کچھ نہیں بگڑتا اور جو انہیں اور بھی مشتعل کرتی
ہیں۔ آخر ماں نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا ” اب تجھے کیا بتاؤں بیٹا۔ یہ مرد سب ایسے
ہوتے ہیں.... کیا جوان کیا بڈھے....“ ”لیکن ماں“ میں نے کہا ”پاپا بھی تو ہیں۔“
|