|
وہ بڈھا
(راجندر سنگھ بیدی)
اس کی شکل اس بڈھے کی شکل سے ملتی تھی....نہیں تو....
پھر اس نوجوان کی شکل صاف ہونے لگی۔ وہ ہنس رہا تھا۔ اس کی بتیسی کتنی سفید اور پکی
تھی۔ اس نے فوج کی لیفٹیننٹ کی وردی پہن رکھی تھی۔ نہیں....پولیس انسپکٹر کی
نہیں....سوٹ، ایوننگ سوٹ، جس میں وہ بے حد خوبصورت معلوم ہو رہا تھا۔ اپنی نیند
واپس لانے کے لئے میں ٹیچر کا بتایا ہوا نسخہ استعمال کرنا شروع کیا۔ میں فرضی
بھیڑیں گننے لگی۔ مگر بے کار تھا، سب کچھ بے کار تھا۔ پر ماتماجانے اس بڈھے نے کیا
جادو جگایا تھا، یا میری اپنی ہی قسمت پھوٹ گئی تھی۔ اچھی بھلی جارہی تھی، بیگل کے
لئے اون کے گولے خریدنے ۔ بیگل! دھت.... وہ میرا بھائی تھا۔ پھر گولے کے اون کے
موٹے موٹے بنے ہوئے دھاگے پتلے ہوتے گئے اور مکڑی کے جال کی طرح میرے دماغ میں الجھ
گئے۔ پھر جیسے سب صاف ہوگیا۔ اب سامنے ایک چٹیل میدان تھا، جس میں کوئی ولی اوتار
بھیڑیں چرا رہا تھا۔وہ بش شرٹ پہنے ہوئے تھا، تن درست، مضبوط اور خوبصورت لاابالی
پن میں اس نے شرٹ کے بٹن کھول رکھے تھے اور چھاتی کے بال صاف اور سامنے نظر آرہے
تھے، جن میں سر رکھ کر اپنے دکھڑے رونے میں مزہ آتا ہے۔ وہ بھیڑیں کیوں چرا رہا
تھا؟ اب مجھے یاد ہے وہ بھیڑیں گنتی میں تہتر تھیں....میں سو گئی....
مجھے کچھ ہوگیا۔نہ صرف یہ کہ میں بار بار خود کو آئینے میں دیکھنے لگی بلکہ ڈرنے
بھی لگی۔ بچے بری طرح میر ے پیچھے پڑے ہوئے تھے اورمیں پکڑے جانے کے خوف میں کانپ
رہی تھی۔ گھر میں میرے رشتے کی باتیں چل رہی تھیں۔ روز کوئی نہ کوئی دیکھنے کو چلا
آتا تھا، لیکن مجھے ان میں سے کوئی بھی پسند نہ تھا۔ کوئی مرا مرگھلا تھا، اور کوئی
تن درست تھا بھی تو اس نے کنویکس شیشوں والی عینک لگا رکھی تھی۔ اس صاحب نے کیمسٹری
میں ڈاکٹریٹ کی ہے ۔ کی ہوگی۔ نہیں چاہیے کیمسٹری ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھاجو
میری نظرمیں جچ سکے.... وہ نظر جو اب میری نہ تھی ، بلکہ اس بڈھے کی نظر ہو چکی
تھی۔ میں نے دیکھا کہ اب سینما تماشے کو بھی جانے کومیرادل نہیں چاہتا تھا، حالاں
کہ شہر میں کئی نئی اور اچھی پکچریں لگی تھیں اور وہی ہیرو لوگ ان میں کام کرتے تھے
جو کل تک میرے چہیتے تھے۔ لیکن اب وہ یکایک مجھے سسی دکھائی دینے لگے۔ وہ ویسے ہی
پیڑ کے پیچھے سے گھوم کر لڑکی کے پاس آتے تھے اور عجیب طرح کی زنانہ حرکتیں کرتے
ہوئے اسے لبھانے کی کوشش کرتے تھے۔ بھلا مرد ایسے کہاں ہوتے ہیں؟ عورت کے پیچھے
بھاگتے ہوئے....ہشت! وہ تو اسے موقع ہی نہیں دیتے کہ وہ ان کے لئے روئے، تڑپے۔ حد
ہے نا، مرد ہی نہیں جانتے کہ مرد کیا ہے؟ ان میں سے ایک بھی تو میری کسوٹی پر پورا
نہیں اتر تا تھا.... جو میری کسوٹی بھی نہ تھی۔
ان ہی دنوں میں نے اپنے آپ کو پریج کے میدان میں پایا جہاں ہند اور پاکستان کے بیچ
ہاکی میچ ہو رہا تھا۔ پاکستان کے گیارہ کھلاڑیوں میں سے کم از کم چار پانچ ایسے تھے
جو نظروں کو لوٹ لیتے تھے۔ ادھر ہند کی ٹیم میں بھی اتنی ہی تعداد میں خوابوں کے
شہزادے موجود تھے.... چار پانچ، جن میں سے دو سکھ تھے۔ چار پانچ ہی کیوں؟ مجھے ہنسی
آئی.... پاکستان کا سنٹر فارورڈ عبد الباقی.... کیا کھلاڑی تھا! اس کی ہاکی کیاتھی؟
چمبک پتھر تھی، جس کے ساتھ گیند چمٹی ہی رہتی تھی۔ یوں پاس دیتا تھا جیسے کوئی بات
ہی نہیں۔ چلتا تو یوں جیسے مینز لینڈ میں جا رہا ہے۔ ہندوستانی سائیڈ کے گول پر
پہنچ کر ایسا نشانہ بٹھاتا کہ گولی کی سب محنتیں بے کار اور گیند پوسٹ کے پار!
گول!.... تماشائی شور مچاتے، بمبئی کے مسلمان نعرے لگاتے، بغلیں بجاتے۔ یہی نہیں
اتری بھارٹ کے ہندوستانی بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے۔ ہندوستانی ٹیم کا شنگارا
سنگھ تھا....کیا کارنر لیتا تھا! جب اس نے گول کیا تو اس سے بھی زیادہ شور ہوا۔ اب
دونوں طرف کے کھلاڑی فاؤل کھیلنے لگے۔ وہ آزادانہ ایک دوسرے کے ٹخنے گھٹنے توڑنے
لگے.... لیکن میچ چلتا رہا۔
پاکستانی ٹیم ہندوستانی پر بھاری تھی۔ ان میں سے کسی کے ساتھ لو لگانا میرے لئے
ٹھیک بھی نہ تھے لیکن....ہر وہ چیز انسان کو بھڑکاتی ہے جسے کرنے سے منع کیا گیا
ہو۔ ہندو لڑکی کسی مسلمان سے شادی کرلیتی ہے یا مسلمان لڑکی سکھ کے ساتھ بھاگ جاتی
ہے تو کیسا شورمچتا ہے! کوئی نہیں پوچھتا اس لڑکی سے کہ اسے کیا تکلیف تھی۔ چاہے وہ
لڑکی خود ہی بعد میں کہے.... کیا ہندو، کیا مسلمان اور کیا سکھ سب ایک ہی سے کمینے
ہیں۔
|