|
وہ بڈھا
(راجندر سنگھ بیدی)
ہندوستانی ٹیم میں ایک اسٹینڈ بائی تھی جو سب سے زیادہ خوبصورت اور گبرو جوان
تھا۔ اسے کھلا کیوں نہیں رہے تھے؟
کھیل کے بعد جب میں آٹو گراف لینے کے لئے کھلاڑیوں کے پا س گئی تو میں اپنی کاپی اس
اسٹینڈ بائی کے سامنے بھی کردی۔ وہ بہت حیران ہوا۔ وہ تو کھیلا ہی نہ تھا۔میں نے اس
سے کہا”تم کھیلوگے۔ ایک دن کھیلو گے۔ کوئی بیمار پڑ جائے گا ، مر.... تم کھیلوگے۔
سب کو مات دو گے، ٹیم کے کیپٹن بنو گے!“
اسٹینڈ بائی کا تو جیسے دل ہی پگھل کر باہر آگیا۔نم آنکھوں سے اس نے میری طرف دیکھا
جیسے میں جو کچھ کہہ رہی ہوں وہ الہام ہے! اور شاید وہ الہام تھا بھی، کیوں کہ وہ
سب کچھ میں تھوڑا ہی کہہ رہی تھی۔ میرے اندر کی کوئی چیز تھی جو مجھے وہ سب کچھ
کہنے کو مجبور کر رہی تھی۔ پھر میں نے اسے چائے کی دعوت دی، جو اس نے قبول کرلی اور
میں اسے ساتھ لے کر لارڈ پہنچ گئی۔ جب میں اس کے ساتھ چل رہی تھی تو ایک سنسناہٹ
تھی جو میرے پورے بدن میں دوڑ دوڑ جاتی تھی۔ کیسے ڈر خوشی بن جاتا ہے اور خوشی ڈر۔
میں نے چندیری کی جو ساڑھی پہن رکھی تھی، بہت پتلی تھی۔ مجھے شرم آرہی تھی اور شرم
ہی شرم میں ایک مزہ بھی کبھی کبھی مجھے یاد آتا تھا اور پھر بھول بھی جاتی تھی کہ
لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت دنیا میں کوئی نہیں تھا، میرے اور اس اسٹینڈ بائی کے
سوا جس کا نام جے کشن تھا۔لیکن اسے سب پر نٹو کے نام سے پکارتے تھے۔
ہم دونوں لارڈ پہنچ گئے ، اور ایک سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ایک دوسرے کی قربت سے ہم دونوں
شرابی ہوگئے تھے۔ہم ساتھ لگ کے بیٹھے تھے کہ الگ ہٹ گئے اور پھر ساتھ لگ کر بیٹھ
گئے۔ بدنوں میں سے ایک بو لپک رہی تھی.... سوندھی سوندھی، جیسے تنورمیں پڑی ہوئی
روٹی سے اٹھتی ہے ۔ میں چاہتی تھی کہ ہم دونوں کے درمیان کچھ ہو جائے۔ پیار، جیسے
پیار کوئی آ لا کارت ڈش ہوتی ہے۔ چائے آئی جسے پیتے ہوئے میں نے دیکھا کہ وہ چور
نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہے.... میرے بدن کے اسی حصے کو جہاں اس بڈھے کی نظریں ٹکی
تھیں۔ وہ بڈھا تھا؟ ماں نے کہا تھا.... مرد سب ایک سے ہی ہوتے ہیں، کیا جوان کیا
بڈھے؟
ہو سکتا تھا ہماری بات آگے بڑھ جاتی ، لیکن پرنٹو نے سارا قلعہ ڈھیر کردیا۔ پہلے اس
نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے دبا دیا۔ اس حرکت کو میں نے پیار کی
اٹھکیلی سمجھا۔ لیکن اس کے بعد وہ سب کی نظریں بچا کر بچا کر اپنا ہاتھ میرے شریر
کے اس حصے پر دوڑانے لگا، جہاں عورت مرد سے جدا ہو نے لگتی ہے۔ میرے تن بدن میں آگ
سی لپک آئی۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹنے لگیں....نفرت کی، محبت کی۔ میرا چہرہ
لال ہونے لگا۔ میں باتیں بھولنے لگی۔ میں نے اس کا ہاتھ جھٹکا تو اس نے مایوس ہو کر
رات کو بیک بے میں چلنے کی دعوت دی، جسے فوراً مانتے ہوئے میں نے ایک طرح انکار
کردیا۔ وہ مجھے، عورت کو بالکل غلط سمجھ گیا تھا، جو ڈھرے پہ تو آتی ہے مگر سیدھے
نہیں۔ اس کی تو گالی بھی بے حیا مرد کی طرح سیدھی نہیں ہوتی۔ اس کا سب کچھ گول مول،
ٹیڑھا میڑھا ہوتاہے۔ روشنی سے وہ گھبراتی ہے، اندھیرے سے اسے ڈر لگتا ہے۔ آخر
اندھیرا رہتا ہے نہ ڈر، کیوں کہ وہ ان آنکھوں سے پرے، ان روشنیوں سے پرے ایک ایسی
دنیا میں ہوتی ہے جو سانسوں کی دنیا، یوگ کی دنیا ہوتی ہے ،جسے آنکھوں کے بیچ کی
تیسری آنکھ ہی گھور سکتی ہے۔
گے لارڈ سے باہر نکلے تو میرے اور پرنٹو کے درمیان سوا تندرستی کے اور کوئی بات
مشترک نہ رہی تھی۔ میرے گھسیائے ہونے سے وہ بھی گھسیا چکا تھا۔ میں نے سڑک پر جاتی
ہوئی ایک ٹیکسی کو روکا۔ پرنٹونے بڑھ کر میرے لئے دروازہ کھولا اور میں لپک کر اندر
بیٹھ گئی۔
”بیک بے ۔“پرنٹو نے مجھے یاد دلایا۔
”میں نے طوطے کی طرح رٹ دیا ” بیک بے“.... اور پھر ٹیکسی ڈرائیور کی طرف منہ موڑتے
ہوئے بولی ....”ماہم“۔
”بیک بے نہیں؟ “ وہ بولا۔
”نہیں “ میں نے کرخت سی آواز میں جواب دیا”ماہم“۔
|