|
وہ بڈھا
(راجندر سنگھ بیدی)
آج یہ رازکھلا کہ ان کے ہاں بچہ کیوں نہیں ہوتا۔
فیملی پلاننگ تو ایک نا م ہے۔
ماں نے کہا ”کامنی تمہاری بیٹی ہے اسی لئے تو نہیں چاہتی کہ اسے بھی کسی گڑھے میں
پھینک دو۔“
میرا خیال تھا کہ اس پر اور تو تو میں میں ہو گی اور گووند چا چا بائیں بازو کی
پارٹی کی طرح واک آؤٹ کر جائیں گے ، لیکن وہ الٹا قسمیں کھانے لگے ”تمہاری سوگند
بھابی۔ اس سے اچھا لڑکا تمہیں نہ ملے گا۔ وہ بڑودہ کی سنٹرل ریلوے کی ورک شاپ میں
فورمین ہے۔ بڑی اچھی تنخواہ پاتاہے۔“
میں سب کچھ سن رہی تھی اور اندر جھلا رہی تھی.... ہو نہ لڑکا اچھا ہے، تنخواہ اچھی
ہے.... لیکن شکل کیسی ہے، عقل کیسی ہے، عمر کیا ہے؟ اس کے بارے میں کوئی کچھ کہتا
ہی نہیں۔ فورمین بنتے بنتے برسوں لگ جاتے ہیں۔ یہ ہمارا دیس ہے۔پچال سال کا مرد بھی
بیاہنے آئے تو یہاں کی بولی میں اسے لڑکا ہی کہتے ہیں۔ اس کی صحت کیسی ہے؟ کہیں
انٹیلیکچوں تو نہیں معلوم ہوتا؟ اسی دم مجھے پرنٹو کا خیال آیا جو اس وقت بیک بے پہ
میراانتظار کر رہا ہوگا....اسٹینڈ بائی! جو زندگی بھر اسٹینڈ بائی ہی رہے گا۔ کبھی
نہ کھیلے گا۔ اسے کھیلنا آتا ہی نہیں۔ اس میں صبر ہی نہیں۔ پھر مجھے اس غریب پر ترس
آنے لگا۔ جی چاہا بھاگ کر اس کے پاس چلی جاؤں۔ اسے تو میں نے دیکھا اور پسند بھی
کیا تھا، لیکن اس فورمین کو جو بیک گراؤنڈ میں کہیں مسکرا رہا تھا....
پھر جیسے من کے اندھیرے میں مچھر بھنبھناتے ہیں....مس گپتا سے مسز سولنگی کہلائی تو
کیسی لگوں گی....بکواس!
گووند چا چا کہہ رہے تھے”لڑکا تن کا اجلاہے، من کا اجلاہے اس کی آتما کتنی اچھی ہے،
اس کا اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بچوں سے پیار کرتاہے۔ بچے اس پر جان دیتے ہیں،
اس کے اردگرد منڈلاتے ہیں، ہی ہی، ہو ہو، ہاہا کرتے رہتے ہیں اور وہ بھی ان کے ساتھ
غی غی، غو غو، غاں غاں....“
بس.... میں اندر کے کسی سفر سے اتنا تھک چکی تھی کہ رات کومجھے بھیڑیں گننے کی بھی
ضرورت نہ پڑی۔ ایک سپاٹ، بے رنگ، بے خواب سی نیند آئی....ایسی نیند جو لمبے رت جگوں
کے بعد آتی ہے۔
دو ہی دن بعد وہ لڑکا ہمارے گھر پر موجود تھا۔ ارے! یہ سب اندازے کتنے غلط نکلے!
.... وہ ہاکی ٹیم کے سب لڑکوں.... کیاکھیلنے والے اور کیا اسٹینڈ بائی.... سب سے
زیادہ گبرو، زیادہ جوان تھا۔ اس نے صرف کسرت ہی نہیں کی تھی، آرام بھی کیا تھا۔ اس
کا چہرہ اندر کی گرمی سے تمتمایا ہوا تھا۔ رنگ کندنی تھا.... میری طرح۔ مضبوط
دہانہ، مضبوط دانتوں کی باڑھ....جیسے بے شمار گنے چوسے ہوں، گاجر، مولیاں کھائی
ہوں، شاید کچے شلغم بھی۔ وہ ایک طرف گھبرایا ہوا تھا اور دوسری طرف اپنی گھبراہٹ کو
بہادری کی اوٹ میں چھپا رہا تھا۔ آتے ہی اس نے مجھے نمستے کی، میں نے بھی جواب میں
نمستے کر ڈالی۔ پھر اس نے ماں کو پرنام کیا۔ جب وہ میری طرف نہ دیکھتا تھا تو میں
اسے دیکھ لیتی تھی۔ یہ اچھا ہوا کہ کسی کو پتہ نہ چلا کہ میری ٹانگیں کپکپانے لگی
ہیں اور دل دھڑام سے شریر کے اندر ہی کہیں نیچے گر گیا ہے۔ آج کل کی لڑکی ہونے کے
ناطے مجھے ہسٹیریا کا ثبوت نہ دینا تھا، اس لئے ڈٹی رہی۔ بیچ میںمجھے خیال آیا کہ
بے کار کی بغاوت کی وجہ سے میں نے تو اپنے بال بھی نہیں بنائے تھے۔
اس کے ساتھ اس کی ماں بھی آئی تھی۔ وہ بچھی جا رہی تھی، جیسے بیٹوں کی شادی سے پہلے
مائیں بچھتی ہیں۔ مجھے تو یوں لگا جیسے وہ لڑکا نہیں، اس کی ماں مر مٹی ہے اور جانے
مجھ میں اپنے مستقبل کا کیا دیکھ رہی ہے؟ اس کی اپنی صحت بہت خراب تھی اور وہ اپنی
کبھی کی خوبصورتی اور تن درستی کی باتیں کرکے اپنے بیٹے کے لئے مجھے مانگ رہی
تھی۔یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اسے اپنی ”ماں“ پر بھروسہ نہیں.... وہ بھکارن کہہ
رہی تھی لڑکوں کی خوبصورتی کس نے دیکھی ہے؟ لڑکے سب خوبصورت ہوتے ہیں.... بس اچھے
گھر کے ہوں، کماؤ ہوں.... اور وہ اپنی ماں کی طرف یوں دیکھ رہا تھا جیسے وہ اس کے
ساتھ کوئی بہت بڑا ظلم کر رہی ہے۔ میری ماں کے کہنے پر وہ کچھ شرماتا ہوا میرے پاس
آکر بیٹھ گیا اور ”باتیں “ کرو کے حکم پر مجھ سے باتیں کرنے لگا۔
|