|
وہ بڈھا
(راجندر سنگھ بیدی)
پہلے تو میں چپ
رہی۔ پھر جب بولی تو صرف یہ ثابت ہوا کہ میں گونگی نہیں ہوں۔ سفید قمیص، سفید پتلون
اور سفید ہی بوٹ پہنے وہ کرکٹ کا کھلاڑی معلوم ہو رہا تھا۔ وہ کیپٹن نہیں تو بیٹس
مین ہوگا۔ نہیں بولر .... بولر، جو تھوڑا پیچھے ہٹ کر آگے آتا ہے اور بڑے زور کے
سپن سے گیند کو پھینکتا ہے .... اور وکٹ صاف اڑجاتی ہے۔ ہاں بیٹس مین اچھا ہو تو
چوکسی کے ساتھ گیند کو باؤنڈری سے بھی پرے پھینک دیتا ہے، نہیں تو خود ہی آؤٹ!
ماں کے اشارے پر میں نے اس سے پوچھا” آپ چائے پئیں گے؟“
”جی؟“ اس نے چونک کر کہا اور پھر جیسے میری بات کہیں دھرتی کے پورے کرے کا چکر کاٹ
کر اس کے دما غ میں لوٹ آئی اور وہ بولا ”آپ پئیں گی؟“
میں ہنس دی ”میں نہ پیوں تو کیا آپ نہیں پئیں گے؟“
”آپ پئیں گی تو میں بھی پی لوں گا۔“
میں حیران ہوئی ، کہ وہ بھی ایسا ہی تھا جیسے ماں کے سامنے میرے باپا.... لیکن ایسا
تو بہت بعد میں ہوتا ہے۔ وہ شروع میں ہی ایسا تھا۔
چائے بنانے کے لئے اٹھی تو سامنے آئینے پرمیر ی نظر گئی۔ وہ مجھے جاتے دیکھ رہا
تھا۔ میںنے ساڑھی سے اپنے بدن کو چھپایا اور پھر اس بڈھے کے الفاظ یاد آگئے....”آج
کل یہاں چور آئے ہوئے ہیں....دیکھنا کہیں پولیس ہی نہ پکڑ لے تمہیں....“
بس کچھ ہی دن میں میں پکڑی گئی۔ میری شادی ہوگئی۔ میرے گھر کے لوگ یوں تو بڑے آزاد
خیال ہیں، لیکن دیدی پر بٹھاتے ہوئے انہوں نے جیسے مجھے بوری میں ڈال رکھا تھا تاکہ
میرے ہاتھ پاؤں پر کسی کی نظر بھی نہ پڑے۔ میں پردہ پسند کرتی ہوں، لیکن صرف اتنا
جس میں دکھائی بھی دے اورشرم بھی رہے۔ زندگیمیں ایک بار ہی تو ہوتا ہے کہ وہ دبے
پاؤں آتا ہے اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس گھونگھٹ کو اٹھاتا ہے جسے بیچ میں سے
ہٹائے بنا پرماتما بھی نہیں ملتا۔
شادی کے ہنگامے میں میں نے تو کچھ نہیں دیکھا کون آیا ، کون گیا۔ بس چھوٹے سولنگی
میرے من میں سمائے ہوئے تھے۔ میں نے جو بھی کپڑا، جو بھی زیور پہنا تھا، جو بھی
افشاں چنی تھی، ان ہی کی نظروں سے دیکھ کر، جیسے میری اپنی نظریں ہی نہ رہی تھیں۔
میں سب سے بچنا، سب سے چھپنا چاہتی تھی تاکہ صرف ایک کے سامنے کھل سکوں، ایک پر
اپنا آپ وار سکوں۔جب برات آئی تو میری سہلیوں نے بہت کہا، ”بالکونی پر آجاؤ، برات
دیکھ لو۔“ لیکن میں نے ایک ہی نہ پکڑ لی۔ میں نے ایک روپ دیکھا تھا جس کے بعد کوئی
دوسرا روپ دیکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔
آخر میں نے سسرال کی چوکھٹ پر قدم رکھا۔ سب میرے سواگت کے لئے کھڑے تھے۔ گھر کی سب
عورتیں، سب مرد.... بچوں کی ہنسی سنا ئی دے رہی تھیں اور وہ مجھے گھونگھٹ میں سے
دھندلے دھندلے دکھائی دے رہے تھے۔سب رسمیں ادا ہوئیں جیسی ہر شادی میں ہوتی ہیں۔
لیکن جانے کیوں مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میری شادی اور ہے، میرا گھونگٹ اور ، میرا
بر اور۔ گھر کے اشٹ دیو کو ماتھا ٹکانے کے بعد میری ساس مجھے اپنے کمرے میں لے گئی
تاکہ میں اپنے سسرال کے پاؤں چھوؤں، ان کے چرنوں کو ہاتھ لگایا۔ انہوں نے میرے
سر پر ہاتھ رکھا اور بولے”سو تم.... آگئیں بیٹی؟“
میں نے تھوڑا چونک کر اس آواز کے مالک کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر ان کے قدموں پر
سر رکھ دیا۔ کچھ اور بھی آنسو ہوتے تو میں ان قدموں کو دھو دھو کر پیتی۔
|