|
اپنے دُکھ مجھے دے دو
(راجندر سنگھ بیدی)
شادی کی رات بالکل وہ نہ ہوا جو مدن نے سوچا تھا۔جب چکلی بھابی نے پھسلا کر مدن کو
بیچ والے کمرے میں دھکیل دیا تو اندو سامنے شالوں میں لپٹی اندھیرے کا بھاگ بنی
جارہی تھی۔ باہر چکلی بھابی اور دریا باد والی پھوپھی اور دوسری عورتوں کی ہنسی،
رات کے خاموش پانیوں میں مصری کی طرح دھیرے دھیرے گھل رہی تھی۔ عورتیں سب یہی
سمجھتی تھیں کہ اتنا بڑا ہوجانے پر بھی مدن کچھ نہیں جانتا۔ کیونکہ جب اسے بیچ رات
سے جگایا گیا تو وہ ہڑبڑا رہا تھا۔ ”کہاں کہاں لئے جا رہی ہو مجھے ؟“
ان عورتوں کے اپنے اپنے دن بیت چکے تھے۔ پہلی رات کے بارے میں ان کے شریر شہروں نے
جو کچھ کہا اور مانا تھا ۔ اس کی گونج ان کے کانوں میں باقی نہ رہی تھی۔وہ خود رس
بس چکی تھیں اور اب اپنی ایک اور بہن کو بسانے پر تلی ہوئی تھیں۔ زمین کی یہ بیٹیاں
مرد کو تو یوں سمجھتی تھیں جیسے بادل کا ٹکڑا ہے جس کی طرف بارش کے لئے منہ اٹھا
کردیکھنا ہی پڑتا ہے۔ نہ برسے تو منتیں ماننی پڑتی ہیں۔ چڑھاوے چڑھانے پڑتے ہیں۔
جادو ٹونے کرنے ہوتے ہیں۔ حالانکہ مدن کالکا جی کی اس نئی آبادی میں گھر کے سامنے
کی جگہ میں پڑا اسی وقت کا منتظر تھا۔ پھر شامت اعمال پڑوسی سبطے کی کی بھینس اس کی
کھاٹ ہی کے پاس بندھی تھی جو بار بار پھنکارتی ہوئی مدن کو سونگھ لیتی تھی اور وہ
ہاتھ اٹھا اٹھا کر اسے دور رکھنے کی کوشش کرتا۔ ایسے میں بھلا نیند کا سوال ہی کہاں
تھا؟
سمندر کی لہروں اور عورت کے خون کو راستہ بتانے والا چاند ایک کھڑکی کے راستے سے
اندر چلا آیا تھا اور دیکھ رہا تھا۔ دروازے کے اس طرف کھڑا مدن اگلا قدم کہاں رکھتا
ہے ۔ مدن کے اپنے اندر ایک گھن گرج سی ہو رہی تھی اور اسے اپنا آپ یوں معلوم ہورہا
تھا جیسے بجلی کا کھمبا ہے۔ جیسے کان لگانے سے اسے اندر کی سنسناہٹ سنائی دے جائے
گی۔ کچھ دیر یونہی کھڑے رہنے کے بعد اس نے آگے بڑھ کر پلنگ کو کھینچ کر چاندنی میں
کردیا تاکہ دلہن کا چہرہ تو دیکھ سکے۔ پھر وہ ٹھٹک گیا۔ جب اس نے سوچا.... اندو
میری بیو ی ہے۔ کوئی پرائی عورت تو نہیں جسے نہ چھونے کا سبق بچپن ہی سے پڑھتا آیا
ہوں۔ شالو میں لپٹی ہوئی دلہن کودیکھتے ہوئے اس نے فرض کرلیا، وہاں اندو کا منہ ہو
گا۔ اور جب ہاتھ بڑھا کر اس نے پاس پڑی گٹھڑی کو چھوا تو وہیں اندو کا منہ تھا ۔
مدن نے سوچا تھا۔ وہ آسانی سے مجھے اپنا آپ نہ دیکھنے دے گی۔ لیکن اندو نے ایسا نہ
کیا۔ جیسے پچھلے کئی سالوں سے وہ بھی اسی لمحے کی منتظر ہو۔ اور کسی خیالی بھینس کے
سونگھتے رنے سے اسے بھی نیند نہ آ رہی ہو۔ غائب نیند اور بند آنکھوں کا کرب اندھیرے
کے باوجود سامنے پھڑپھڑاتا ہوا نظر آرہا تھا۔ ٹھوڑی تک پہنچتے ہوئے عام طور پو چہرہ
لمبوترا ہو جاتا ہے لیکن یہاں تو سبھی گول تھا۔ شاید اسی لئے چاند نی کی طرف گال
اور ہونٹوں کے بیچ ایک سائے دار کھوہ سی بنی ہوئی تھی۔ جیسی دو سر سبز اور شاداب
ٹیلوں کے بیچ ہوتی ہے۔ ماتھا کچھ تنگ تھا لیکن اس پر سے ایکا ایکی اٹھنے والے
گھنگھریالے بال۔
جبھی اندو نے اپنا چہرہ چھڑا لیا جیسے وہ دیکھنے کی اجازت تو دیتی ہو لیکن اتنی دیر
کے لئے نہیں۔ آخر شرم کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے۔ مدن نے ذرا سخت ہاتھوں سے یوں ہی
سی ہوں ہاں کرتے ہوئے دلہن کا چہرہ پھر سے اوپر کو اٹھا دیا۔ اور شرابی سی آواز میں
کہا۔ ”اندو!“
اندو کچھ ڈر سی گئی۔ زندگی میں پہلی بار کسی اجنبی نے اس کا نام اس انداز سے پکارا
تھا۔ اور وہ اجنبی کسی خدائی حق سے رات کے اندھیرے میں آہستہ آہستہ اس اکیلی بے یار
و مددگار عورت کا اپنا ہوتا جا رہا تھا۔۔
|