|
اپنے دُکھ مجھے دے دو
(راجندر سنگھ بیدی)
اندوہ نے پہلی بار ایک نظر اوپر دیکھتے
ہوئے پھر آنکھیں بند کرلیں اور صرف اتنا سا کہا۔ ”جی“ اسے خود اپنی آواز کسی پاتال
سے آئی ہوئی سنائی دی۔
دیر تک کچھ ایسا ہی ہوتا رہا۔ اور پھر ہولے ہولے بات چل نکلی۔ اب جو چلی سو چلی۔ وہ
تھمنے ہی میں نہ آتی تھی۔ اندو کے پتا، اندو کی ماں، اندو کے بھائی، مدن کے بھائی
بہن، باپ ، ان کی ریلوے سیل سروس کی نوکری، ان کے مزاج، کپڑوں کی پسند، کھانے کی
عادت، سبھی کا جائزہ لیا جانے لگا۔ بیچ بیچ میں مدن بات چیت کو توڑ کر کچھ اور ہی
کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اندو طرح دے جاتی تھی۔ انتہائی مجبوری اور لاچاری میں مدن نے
اپنی ماں کاذکر چھیڑ دیا۔ جو اسے سات سال کی عمر میں چھوڑ کر دق کے عارضے سے چلتی
بنی تھی۔ ”جتنی دیر زندہ رہی بیچاری“ مد ن نے کہا ۔ ”بابو جی کے ہاتھ میں دوائی کی
شیشیاں رہیں۔ہم اسپتال کی سیڑھویں پر اور چھوٹا پاشی گھر میں چیونٹیوں کے بل پر
سوتے رہے۔ اور آخر ایک دن....۸۲ مارچ کی شام....“ اور مدن چپ ہو گیا ۔ چند ہی لمحوں
میں وہ رونے سے ذرا ادھر اور گھگھی سے ذرا ادھر پہنچ گیا۔ اندو نے گھبرا کر مدن کا
سر اپنی چھاتی سے لگا لیا۔ اس رونے پل بھر میں اندو کو اپنے پن سے ادھر اور بیگانے
پن سے ادھر پہنچا دیا تھا....مدن اندو کے بارے میں کچھ اور بھی جاننا چاہتا تھا
لیکن اندو نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے اور کہا ۔ ”میں تو پڑھی لکھی نہیں ہو ں جی....پر
میں نے ماں باپ دیکھے ہیں، بھائی اور بھابیاں دیکھی ہیں، بیسیوں اور لو گ دیکھے
ہیں۔ اس لئے میں کچھ سمجھتی بوجھتی ہوں....میں اب تمہاری ہوں.... اپنے بدلے میں تم
سے ایک ہی چیز مانگتی ہوں۔“
روتے وقت اور اس کے بعد بھی ایک نشہ سا تھا۔ مد ن نے کچھ بے صبری اور کے ملے جلے
شبدوں میں کہا.... ”کیامانگتی ہو؟ تم جو بھی کہو گی میں دو ں گا۔“
”پکی بات؟“ اندو بولی۔
مدن نے کچھ اتادلے ہو کر کہا ۔ ”ہاں ہاں ....کہا جو پکی بات۔ “
لیکن اس بیچ میں مدن کے من میں ایک وسوسہ آیا.... میرا کاروبار پہلے ہی مندا ہے،
اگر اندو کوئی ایسی چیزمانگ لے جو میری پہنچ ہی سے باہر ہو تو پھر کیا ہو گا؟ لیکن
اندو نے مدن کے سخت اور پھیلے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ملائم ہاتھوں سے سمیٹتے ہوئے ان
پر اپنے گال رکھتے ہوئے کہا۔
” تم اپنے دکھ مجھے دو۔“
مدن سخت حیرا ن ہوا۔ ساتھ ہی اپنے آپ پر ایک بوجھ اترتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے پھر
چاندنی میں ایک بار پھر اندو کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ کچھ نہ جان پایا۔
اس نے سوچا یہ ماں یا کسی سہیلی کا رٹا ہوا فقرہ ہو گا جو اندو نے کہہ دیا ۔جبھی یہ
جلتا ہوا آنسو مدن کے ہاتھ کی پشت پر گرا۔ اس نے اندو کو اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا
۔ ”دیے....!“ لیکن ان سب باتوںنے مدن سے اس کی بہیمت چھین لی تھی۔
مہان ایک ایک کر کے سب رخصت ہوئے۔ چکلی بھابھی دو بچوں کو انگلیوں سے لگائے سیڑھیوں
کی اونچ نیچ سے تیسرا پیٹ سنبھالتی ہوئی چل دی۔ دریا باد والی پھوپھی جو اپنے
”نولکھے “ ہار کے گم ہوجانے پر شور مچاتی واویلا کرتی ہوئی بے ہوش ہو گئی تھی۔ اور
جو غسل خانے میں پڑا ہو ا مل گیا تھا۔ جہیز میں سے اپنے حصے کے تین کپڑے لے کر چلی
گئی۔ پھر چاچا گئے۔ جن کو ان کے جے پی ہوجانے کی خبر تار کے ذریعے ملی تھی اور جو
شاید بدحواسی میں مدن کی بجائے دلہن کا منہ چومنے چلے تھے۔
گھر میں بوڑھا باپ رہ گیا تھا اور چھوٹے بہن بھائی۔ چھوٹی دلاری تو ہر وقت بھابی کی
ہی بغل میں گھسی رہتی۔ گلی محلے کی کوئی عورت دلہن کو دیکھے یا نہ دیکھے۔ دیکھے تو
کتنی دیر دیکھے۔ یہ سب اس کے اختیار میں تھا۔ آخر یہ سب ختم ہوا اور آہستہ آہستہ
پرانی ہو نے لگی۔ لیکن کا کا جی کی اس نئی آبادی کے لوگ اب بھی آتے جاتے۔ مدن تو اس
کے سامنے رک جاتے اور کسی بھی بہانے سے اندر چلے آتے۔ اندو انہیں دیکھتے ہی ایک دم
گھونگٹ کھینچ لیتی لیکن اس چھوٹے سے وقفے میں جوکچھ دکھائی دے جاتا وہ بنا گھونٹ کے
دکھائی ہی نہ دے سکتا تھا۔
مدن کا کاروبار گندے بروزے کا تھا۔ کہیں بڑی سپلائی والے دو تین جنگلوں میں چیڑ
اوردیودار کے پیڑوں کی جنگل میں آگ نے آلیا تھا اور وہ دھڑا دھڑا جلتے ہوئے خاک
سیاہ ہو کر رہ گئے تھے۔۔
|