|
اپنے دُکھ مجھے دے دو
(راجندر سنگھ بیدی)
میسور اور آسام کی طرف سے منگوایا ہوا بیروزہ مہنگا پڑتا
تھا اور لوگ اسے مہنگے داموں خریدنے کو تیار نہ تھے۔ ایک تو آمدنی کم ہو گئی تھی۔
اس پر مدن جلدی ہی دکان اور اس کے ساتھ والا دفتر بند کرکے گھر چلا آتا۔ گھر پہنچ
کر اس کی ساری کوشش یہی ہوتی کہ سب کھائیں پئیں اور اپنے اپنے بستروں میں دبک
جائیں۔ جب وہ کھاتے وقت خود تھالیاں اٹھا اٹھا کر باپ اور بہن کے سامنے رکھتا۔ اور
ان کے کھا چکنے کے جھوٹے برتنوں کو سمیٹ کر نل کے نیچے رکھ دیتا۔ سب سمجھتے بہو۔
بھابی نے مدن کے کان میں کچھ پھونکا ہے اور اب وہ گھر کے کام کاج میں دلچسپی لینے
لگا ہے ۔ مدن سب سے بڑا تھا۔کندن اس سے چھوٹا اور پاشی سب سے چھوٹا۔ جب کندن بھابی
کے سواگت میں سب کے ایک ساتھ بیٹھ کر کھانے پر اصرار کرتا تو باپ دھنی رام وہیں
ڈانٹ دیتا۔
”کھاو ¿ تم۔ “ وہ کہتا ” وہ بھی کھا لیں گے“ اور پھر رسوئی میں ادھر ادھر دیکھنے
لگتا اور جب بہو کھانے پینے سے فارغ ہو جاتی اور برتنو ں کی طرف متوجہ ہوتی تو بابو
دھنی رام اسے روکتے ہوئے کہتے۔ ”رہنے دے بہو برتن صبح ہو جائیں گے۔“
اندو کہتی ”نہیں بابو جی.... میں ابھی کئے دیتی ہوں جھپاکے سے۔“
تب بابو دھنی رام ایک لرزتی ہوئی آواز میں کہتے ”مدن کی ماں ہوتی بہو، تو یہ سب
تمہیں نہ کرنے دیتی۔ ....؟ اور اندو ایک دم اپنے ہاتھ روک لیتی۔
چھوٹا پاشی بھابی سے شرماتا تھا۔ اس خیال سے کہ دلہن کی گود جھٹ سے ہری ہو۔ چمکی
بھابی اور دریا باد والی پھوپھی نے ایک رسم میں پاشی ہی کو اندو کی گود میں ڈالا
تھا۔ جب سے اندو اسے نہ صرف دیور بلکہ اپنا بچہ سمجھنے لگی تھی۔ جب بھی وہ پیار سے
پاشی کو اپنے بازو ¿ں میں لینے کی کوشش کرتی تو وہ گھبرا اٹھتا اور اپنا آپ چھڑا کر
دو ہاتھ کی دوری پر کھڑا ہو جاتا۔ دیکھتا اور ہنستا رہتا۔ پاس آتا تو دور ہٹتا۔ ایک
عجیب اتفاق سے۔ ایسے میں بابو جی ہمیشہ وہیں موجود ہوتے اور پاشی کو ڈانتے ہوئے
کہتے ”ارے جانا ....بھابی پیا ر کرتی ہے ابھی سے مرد ہو گیا تو؟“ اور دلاری تو
پیچھا ہی نہ چھوڑتی اس کا۔ ”میں تو بھابی کے ساتھ ہی سوو ¿ں گی۔“کے اصرار نے بابو
کجی کے اندر کوئی جنا رودھن جگا دیا تھا۔ ایک رات اس بات پر دلاری کو زور سے چپت
پڑی اور وہ گھر کی آدھی کچی، آدھی پکی نالی میں جا گری۔ اندو نے لپکتے ہوئے پکڑا تو
سر سے دوپٹہ اڑ گیا۔ بالوں کے پھول اور چڑیاں، مانگ کا سیندور، کانوں کے کرن پھول
سب ننگے ہوگئے۔ ”بابو جی“۔ اندو نے سانس کھینچتے ہوئے کہا.... ایک ساتھ دلاری کو
پکڑنے اور سر پر دوپٹہ اوڑھنے میں اند و کے پسینے چھوٹ گئے۔ اس بے ماں بچی کو چھاتی
سے لگائے ہوئے اندو نے اسے ایک ایسے بستر میں سلا دیا جہاں سرہانے ہی سرہانے، تکیے
ہی تکیے تھے۔ نہ کہیں پائنتی تھی نہ کاٹھ کے بازو۔ چوٹ تو ایک طرف کہیں کو چبھنے
والی چیز بھی نہ تھی۔ پھر اندو کی انگلیاں دلاری کے پھوڑے ایسے سر پر چلتی ہوئی اسے
دکھا بھی رہی تھیں اور مزا بھی دے رہی تھیں۔ دلاری کے گالوں پر بڑے بڑے اور پیارے
پیارے گڑھے پڑتے تھے ۔ اندو نے ان گڑھوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ”ہائے ری منی! تیری
ساس مرے، کیسے گڑھے پڑ رہے ہیں گالوں پر....!“
منی نے منی کی طرح کہا۔ ”گڑھے تمہارے بھی تو پڑتے ہیں بھابی۔“
”ہاں منو!“ اندو نے کہا اور ایک ٹھنڈا سانس لیا۔
مدن کو کسی بات پر غصہ تھا۔ وہ پاس ہی کھڑا سب کچھ سن رہا تھا۔ ”میں تو کہتا ہوں
ایک طرح سے اچھا ہی ہے۔“
”کیوں اچھا کیوں ہے؟“ اندو نے پوچھا۔
”ہاں.... نہ اگے بانس نہ بجے بانسری.... سانس نہ ہو تو کوئی جھگڑا نہیں رہتا۔“ اندو
نے ایکا ایکی خفا ہوتے ہوئے کہا۔ ”تم جاو ¿ جی سو رہو جا کر.... بڑے آئے ہو....آدمی
جیتاہے تو لڑتا ہے نا؟ مر گھٹ کی چپ چاپ سے جھگڑے بھلے۔ جاو ¿ نہ رسوئی میں تمہارا
کیا کام؟“
مدن گھسیانا ہو کر رہ گیا۔ بابو دھنی رام کی ڈانٹ سے باقی بچے تو پہلے ہی اپنے اپنے
بستروں میں یوں جا پڑے تھے جیسے دفتروں میں چھٹیاں سارٹ ہو تی ہیں۔۔
|