|
اپنے دُکھ مجھے دے دو
(راجندر سنگھ بیدی)
لیکن مدن وہیں
کھڑا رہا۔ احتیاج نے اسے ڈھیٹ اور بے شرم بنا دیا تھا لیکن اس وقت جب اندو نے بھی
اسے ڈانٹ دیا تو وہ روہانسا ہو کر اندر چلا گیا۔
دیر تک مدن بسترمیں پڑا کسمساتا رہا۔ لیکن بابو جی کے خیال سے اندو کو آواز دینے کی
ہمت نہ پڑتی تھی۔ اس کی بے صبری کی حد ہو گئی تھی۔ جب منی کو سلانے کے لئے اندو کی
لوری کی آواز سنائی دی....”تو آ نندیا رانی، بورائی مستانی۔“
وہی لوری جو دلاری منی کو سلا رہی تھی ، مدن کی نیند بھگا رہی تھی ۔ اپنے آپ کو سے
بیزار ہو کر اس نے زور سے چادر سر پر کھینچ لی۔ سفید چادر کے سر پر لپیٹنے اور سانس
کے بند کرنے سے خواہ مخواہ ایک مردے کا تصور پیدا ہو گیا۔ مدن کو یوں لگا جیسے وہ
مر چکا ہے اور اس کی دلہن اندو اس کے پاس بیٹھی زور زور سے سر پیٹ رہی ہے، دیوار کے
ساتھ کلائیاں مار مار کر چوڑیاں توڑ رہی ہے اور پھر باہر لپک جاتی ہے اور بانہیں
اٹھا اٹھا کر اگلے محلے کے لوگوں سے فریاد کرتی ہے۔ ”لوگو! میں لٹ گئی۔ “ اب اسے
دوپٹے کی پرواہ نہیں۔ قمیض کی پرواہ نہیں۔ مانگ کا سیندور، بالوں کے پھول، اور
چوڑیاں، جذبات اور خیالات کے طوطے تک اڑ چکے ہیں۔
مدن کی آنکھوں سے بے تحاشہ آنسو بہہ رہے تھے۔ حالانکہ رسوئی میں اندو ہنس رہی تھی۔
پل بھرمیں اپنے سہاگ کے اجڑنے اور پھر بس جانے سے بے خبر۔مدن جب حقائق کی دنیا میں
واپس آیا تو آنسو پونچھتے ہوئے اپنے اس رونے پر ہنسنے لگا.... ادھر اندو توہنس رہی
تھی لیکن اس کی ہنسی دبی دبی تھی۔ بابو جی کے خیال سے وہ کبھی اونچی آواز میں نہ
ہنستی تھی۔ جیسے کھلکھلاہٹ کوئی ننگا پن ہے، خاموشی، دوپٹہ اور دبی دبی ہنسی ایک
گھونگٹ۔ پھر مدن نے اندو کا ایک خیالی بت بنایا اور اس سے بیسیوں باتیں کرڈالیں۔
یوں اس سے پیار کیا جیسے ابھی تک نہ کیا تھا.... وہ پھر اپنی دنیا میں لوٹا جس میں
ساتھ کا بستر خالی تھا۔ اس نے ہولے سے آواز دی.... اندو.... ایک اونگھ سی آئی لیکن
ساتھ ہی یوں لگاجیسے شادی کی رات والی ، پڑوسی سبطے کی بھینس منہ کے پاس پھنکارنے
لگی ہے۔ وہ ایک بے کلی کے عالم میں اٹھا، پھر رسوئی کی طرف دیکھتے، سر کو کھجاتے
ہوئے دو تین جمائیاں لے کر لیٹ گیا.... سو گیا....
مدن جیسے کانوں کو کوئی سندیسہ دے کر سویا تھا۔ جب اندو کی چوڑیاں بستر کی سلوٹیں
سیدھی کرنے سے کھنک اٹھیں تو وہ بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ یوں ایک دم جاگنے میں محبت
کا جذبہ اور بھی تیز ہو گیا تھا۔ پیار کی کروٹوں کو توڑے بغیر آدمی سو جائے اور
ایکا ایکی اٹھے تو محبت دم توڑ دیتی ہے۔ مدن کا سارا بدن اندر کی آگ سے پھنک رہا
تھا۔ اور یہی اس کے غصے کا کرن بن گیا۔ جب اس نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
”تو تم ....آگئیں؟“
”ہاں۔“
”سنی....سو مر گئی؟“
اندو جھکی جھکی ایک دم سیدھی کھڑ ہو گئی۔ ”ہائے رام“ اس نے ناک پر انگلی رکھتے ہوئے
ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ ”کیا کہہ رہے ہو.... مرے کیوں بیچاری۔ ماں باپ کی ایک نہ ہی
بیٹی۔“
”ہاں....مدن نے کہا۔”بھابھی کی ایک ہی نند۔“ اور ایک دم تحکمانہ لہجہ اختیار کرتے
ہوئے بولا۔ ”زیادہ منہ مت لگاو ¿ اس چڑیل کو۔“
”کیوں اس میں کیا پاپ ہے؟“
”یہی پاپ ہے“ مدن نے اور چڑتے ہوئے کہا۔ ”وہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتی تمہارا۔ جب دیکھو
جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہے ۔ دفان ہی نہیں ہوتی۔“
”ہا.... اندو نے مدن کی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ”بہنوں اور بیٹیوں کو یوں تو
دھتکارنا نہیں چاہیے۔ بیچاری دو دن کی
مہمان۔۔
|