|
اپنے دُکھ مجھے دے دو
(راجندر سنگھ بیدی)
آج نہیں تو کل۔ کل نہیں تو پرسوں۔ ایک
دن تو چل ہی دے گی۔“ اس کے بعد اندو کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن وہ چپ ہو گئی۔ اس کی
آنکھوں کے سامنے اپنے ماں باپ، بھائی بہن چچا بھی گھوم گئے۔ کبھی وہ بھی ان کی
دلاری تھی۔ جو پلک جھپکتے ہی نیاری ہو گئی۔ اور پھر دن رات اس کے نکالےجانے کی
باتیں ہو نے لگیں۔ جیسے گھر میں کوئی بڑی سی باہنی ہے جس میں کوئی ناگن رہتی ہے اور
جب تک وہ پکڑ کر پھنکوائی نہیں جاتی۔ گھر کے لوگ آرام کی نیند سو نہیں سکتے۔ دور
دور سے کیلنے والے لتھن کرنے والے۔ دات چھوڑنے والے ماندری بلوائے گئے اور بڑے
دھتورے اور موتی ساگر۔ آخر ایکدن اتر پچھم کی طرف سے لال آندھی آئی جو صاف ہوئی تو
ایک لاری کھڑی تھی جس میں گوٹے کنری میں لپٹی ہوئی ایک دلہن بیٹھی تھی۔ پیچھے گھر
میں ایک سر پر بجھتی ہوئی شہنائی بین کی آواز معلوم ہورہی تھی۔ پھر ایک دھچکے کے
ساتھ لاری چل دی۔
مدن نے کچھ برافروختگی کے عالم میں کہا.... ” تم عورتیں بڑی چالاک ہوتی ہو۔ ابھی کل
ہی اس گھر میں آئی ہو اور یہاں کے سب لوگ تمہیں ہم سے زیادہ پیار کرنے لگے ہیں؟“
”ہاں!“ اندو نے اثبات میں کہا۔
”یہ سب جھوٹ ہے....یہ ہو ہی نہیں سکتا۔“
”تمہار مطلب ہے میں....“
”دکھاوا ہے یہ سب ....ہاں!“
”اچھا جی؟“ اندو نے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا۔ ”یہ سب دکھاوا ہے میرا؟ اور
اندو اٹھ کر اپنے بسترمیں چلی گئی۔ اور سرہانے میں منہ چھپا کر سسکیاں بھرنے لگی۔
مدن اسے منانے والا ہی تھا کہ اندو خود ہی اٹھ کر مدن کے پاس آگئی اور سختی سے اس
کاہاتھ پکڑتے ہوئے بولی۔ ”تم جو ہر وقت جلی کٹی کہتے رہتے ہو.... ہوا کیاہے تمہیں؟“
مجھے تم سے کچھ نہیں لینا۔“
”تمہیں کچھ نہیں لینا مجھے تو لینا ہے۔“ اندو بولی۔ زندگی بھر لینا ہے اور وہ چھینا
جھپٹی کرنے لگی۔
مدن اسے دھتکارتا تھا اور وہ اس سے لپٹ لپٹ جاتی تھی ۔ وہ اس مچھلی کی طرح تھی جو
بہاو ¿ میں بہہ جانے کی بجائے آبشار کے تیز دھارے کو کاٹتی ہوئی اوپر ہی اوپر
پہنچانا چاہتی ہو۔
چٹکیاں لیتے ہوئے ، ہاتھ پکڑتی، روتی ہنستی وہ کہہ رہی تھی....
”پھر مجھے پھاپھا کٹنی کہو گے؟“
”وہ تو سبھی عورتیں ہوتی ہیں۔“
”ٹھہرو....تمہاری تو....“ یوں معلوم ہوا جیسے اندو کوئی گلی دینے والی ہو.... اور
اس نے منہ میں کچھ منمنایا بھی۔ مدن نے مڑتے ہوئے کہا۔ ”کیا کہا؟“ اور اندو نے اب
کی سنائی دینے والی آواز میں دہرایا۔ مدن کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ اگلے ہی لمحے اندومدن
کے بازوو ¿ں میں تھی اور کہہ رہی تھی ”تم مرد لوگ کیا جانو؟.... جس سے پیار ہوتاہے
اس کے سبھی عزیز پیارے معلوم ہوتے ہیں۔ کیا باپ کیا بھائی اور کیا بہن....“ اور
ایکا ایکی کہیں دور سے دیکھتے ہوئے بولی۔ ” میں تو دلاری منی کا بیاہ کروں گی۔“
”حد ہو گئی“ مدن نے کہا۔ ”ابھی ایک ہاتھ کی ہوئی نہیں اور بیاہ کی سوچنے لگیں۔“
”تمہیں ایک ہاتھ کی لگتی ہے نا؟“ اندو بولی اور پھر اپنے ہاتھ مدن کی آنکھوں پر
رکھتے ہوئے کہنے لگی۔ ”ذرا آنکھیں بند کرو اور پھر کھولو۔“ مدن نے سچ مچ ہی آنکھیں
بند کرلیں اور جب کچھ دیر تک نہ کھولیں تو اندو بولی۔ ”اب کھولے بھی.... اتنی دیر
میں تو میں بوڑھی ہو جاو ¿ں گی۔ جبھی مدن نے آنکھیں کھول دیں۔ لمحہ بھر کے لئے اسے
یوں لگا جیسے سامنے اندو نہیں منی بیٹھی ہے اور وہ کھو سا گیا۔“۔
|