|
اپنے دُکھ مجھے دے دو
(راجندر سنگھ بیدی)
”میں نے تو ابھی سے چار سوٹ اور کچھ برتن الگ کر ڈالے ہیں اس کے لئے اور جب مدن نے
کوئی جواب نہ دیا تو اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔ ”تم کیوں پریشان ہوتے ہو.... یاد
نہیں اپنا وچن....؟ تم اپنے دکھ مجھے دے چکے ہو۔“
”ایں؟“ مدن نے چونکتے ہوئے کہا اور جیسے بے فکر ہو گیا۔ لیکن اب کے جب اس نے اندو
کو اپنے ساتھ لپٹایا تو وہاں ایک جسم ہی نہیں رہ گیا تھا ساتھ ایک روح بھی شامل ہو
گئی تھی....
مدن کے لئے اندو روح ہی روح تھی۔ اندو کے جسم بھی تھا۔ لیکن وہ ہمیشہ کسی نہ کسی
وجہ سے مدن کی نظروں سے اوجھل ہی رہا۔ ایک پردہ تھا۔ خواب کے تاروں سے بنا ہوا۔
انہوں کے دھوئیں سے رنگین۔ قہقہوں کی زرتاری سے چکاچوند جو ہر وقت اندو کو ڈھانپے
رہتا تھا۔ مدن کی نگاہوں اور اس کے ہاتھوں کے دو شاسن صدیوں سے اس درو پدی کا چیر
ہر ن کرتے آئے تھے جوکہ عرف عام میں بیوی کہلاتی ہے لیکن ہمیشہ اسے آسمانوں سے
تھانوں کے تھان، گزوں کے گز ، کپڑا ننگا پن ڈھانپنے کے لئے ملتا آیا تھا۔ دو شاسن
تھک ہار کے یہاں وہاں گرے پڑے تھے لیکن درو پدی وہیں کھڑی تھیں، عزت اور پاکیزگی کی
ایک سفید اور بے داغ ساری میں ملبوس وہ دیوی لگ رہی تھی۔اور....
مدن کے لوٹتے ہوئے ہاتھ خجالت کے پسینے سے تر ہوئے، جسے سکھانے کے لئے وہ انہیں
اوپر ہوامیں اٹھا دیتا اور پھر ہاتھ کے پنجوں کو پورے طور پر پھیلا تا ہوا، ایک
تشنجی کیفیت میں اپنی آنکھوں کی پھیلتی پھٹتی ہوئی پتلیوں کو سامنے رکھ دیا اور پھر
انگلیوں کے بیچ میں سے جھانکتا.... اندو کا مر مریں جسم خوش رنگ اور گداز سامنے پڑا
ہوتا۔ استعمال کے لئے پاس، ابتذال کے لئے دور.... کبھی جب اندو کی ناکہ بندی ہو
جاتی تو اس قسم کے فقرے ہوتے....
”ہائے جی“ گھرمیں چھوٹے بڑے ہیں۔ وہ کیا کہیںگے؟
مدن کہتا۔ ”چھوٹے سمجھتے نہیں....بڑے انجان بن جاتے ہیں۔“
اسی دوران میں بابو دھنی رام کی تبدیلی سہارنپور ہو گئی۔ وہاں وہ ریلوے میل سروس
میں سیلیکشن گریڈ کے ہیڈ کلرک ہو گئے ۔ اتنا بڑاکوارٹر ملا کہ اس میں آٹھ کنبے رہ
سکتے تھے۔ لیکن بابو دھنی رام اس میں اکیلے ہی ٹانگیں پھیلائے کھڑے رہتے۔ زندگی بھر
وہ بال بچوں سے کبھی علیحدہ نہیں ہوئے تھے۔ سخت گھریلوقسم کے آدمی آخری زندگی میں
اس تنہائی نے ان کے دل میں وحشت پیدا کردی۔ لیکن مجبوری تھی، بچے سب دلی میں مدن
اور اندو کے پاس تھے اور وہیں اسکول میں پڑھتے تھے۔ سال کے خاتمے سے پہلے انہیں بیچ
میں اٹھانا ان کی پڑھائی کے لئے اچھا نہ تھا۔ بابو جی کے دل کے دورے پڑنے لگے ۔
بارے گرمی کی چھٹیاں ہوئیں۔ ان کے بار بار لکھنے پر مدن نے اندو کو کندن، پاشی اور
دلاری کے ساتھ سہارنپور بھیج دیا.... دھنی رام کی دنیا چمک اٹھی۔ کہاں انہیں دفتر
کے کام کے بعد فرصت ہی فرصت تھی اور کہاں اب کام ہی کام تھا۔ بچے بچوں ہی کی طرح
جہاں کپڑے اتارتے ہیں وہیں پڑے رہنے دیتے اور بابو جی انہیں سمیٹتے پھرتے۔ اپنے مدن
سے دور السانی ہوئی رتی، اندو تو اپنے پہناوے تک سے غافل ہو گئی تھی۔ وہ رسوئی میں
یوں پھرتی تھی جیسے کانجی ہاو ¿س میں گائے، باہر کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر اپنے مالک
کو ڈھونڈا کرتی ہو۔ کام وام کرنے کے بعد وہ کبھی اندر ٹرنکوں پرلیٹ جاتی۔ کبھی باہر
کنیر کے بوٹے کے پاس اور کبھی آم کے پیڑ تلے۔ جو آنگن میں کھڑا سینکڑوں ہزاروں دلوں
کو تھامے ہوئے تھا۔
ساون بھادوں میں ڈھلنے لگا۔ آنکن میں سے باہر کا دریچہ کھلتا تو کنواریاں، نئی
بیاہی ہوئی لڑکیاں پینگ بڑھاتے ہوئے گاتیں.... جھولا کن تے ڈارورے امریاں.... اور
پھر گیت کے بول کے مطابق دو جھولتیں اور دو جھلاتیں اور کہیں چارمل جاتیں تو بھول
بھلیاں ہو جاتیں۔ ادھیڑ عمر کی بوڑھی عورتیں ایک طرف کھڑی تکا کرتیں۔ اندو کو معلوم
ہوتا جیسے وہ بھی ان میں شامل ہو گئی ہے۔ جبھی وہ منہ پھیر لیتی اور ٹھنڈی سانسیں
بھرتی ہوئی سو جاتی۔ بابو جی پاس سے گزرتے تو اسے جگانے، اٹھانے کی ذرا بھی کوشش نہ
کرتے۔
|