|
اپنے دُکھ مجھے دے دو
(راجندر سنگھ بیدی)
بلکہ موقع نہ پا کر اس شلوار کو جو بہو دھوتی سے بدل آتی اور جسے وہ ہمیشہ
اپنی ساس والے پرانے صندل کے صندوق پر پھینک دیتی، اٹھا کر کھونٹی پر لٹکا دیتے۔
ایسے میں انہیں سب سے نظریں بچانا پڑتیں۔ لیکن ابھی شلوار کو سمیٹ کر مڑتے ہی تو
نیچے کونے میں نگاہ بہو کے محرم پر پڑ جاتی ۔ تب ان کی ہمت جواب دے جاتی اور وہ
شتابی کمرے سے نگل بھاگتے۔ جیسے سانپ کا بچہ بل سے باہر آگیا ہو۔ پھر برآمدے میں ان
کی آواز سنائی دینے لگی۔ اوم نموم بھوتے دا سو دیوا....
اڑوس پڑوس کی عورتوں نے بابو جی کی خوبصورتی کی داستانیں دور دور تک پہنچا دی تھیں۔
جب کوئی عورت بابو جی کے سامنے بہو کے پیارے پن اور سڈول جسم کی باتیں کرتی تو وہ
خوشی سے پھول جاتے۔ اور کہتے ”ہم تو دھنیہ ہو گئے، امی چند کی ماں! شکر ہے ہمارے
گھر میں بھی کوئی صحت والا جیو آیا۔“ اور یہ کہتے ہوئے ان کی نگاہیں کہیں دور پہنچ
جاتیں۔ جہاں دق کے عارضے تھے۔ دوائی کی شیشیاں، اسپتال کی سیڑھیاں یا چیونٹیوں کے
بل، نگاہ قریب آتی تو موٹے موٹے گدرائے ہوئے جسم والے کئی بچے بغل میں جانگھ پر،
گردن پرچڑھتے اترتے ہوئے محسوس ہوتے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ابھی اور آرہے
ہیں۔ پہلو پر لیٹی ہوئی بہو کی کمر زمین کے ساتھ اور کولھے چھت کے ساتھ لگ رہے ہیں
اور وہ دھڑا دھڑ بچے جنتی جا رہی ہے اور ان بچوں کی عمر میں کوئی فرق نہیں۔ کوئی
بڑا ہے نہ چھوٹا۔ سبھی ایک سے.... جڑواں.... تو ام ....اوم نمو بھگوتے....
آس پاس کے سب لوگ جان گئے تھے ۔ اندو بابو جی کی چہیتی بہو ہے۔ چنانچہ دودھ اور
چھاچھ کے مٹکے دھنی رام کے گھر آنے لگے۔ اور پھر ایک دم سلام دین گوجر نے فرمائش
کردی۔ اندو نے کہا ” بی بی میرا بیٹا آر۔ ایم ۔ ایس میں قلی رکھوا دو۔ اللہ تم کو
اچھا دے گا۔ “ اندو کے اشارے کی دیر تھی کہ سلام دین کا بیٹا نو کر ہو گیا۔ وہ بھی
سارٹر، جو نہ ہو سکا اس کی قسمت، آسامیاں زیادہ نہ تھیں۔
بہو کے کھانے پینے اور اس کی صحت کا بابو جی خیال رکھتے تھے۔ دودھ پینے سے اندو کو
چڑ تھی۔ وہ رات کے وقت خود دودھ کو بالائی میں پھینٹ ، گلاس میں ڈال، بہو کو پلانے
کے لئے اس کی کھٹیا کے پاس آجاتے۔ اندو اپنے آپ کو سمیٹتے ہوئے اٹھتی اور کہتی
۔”نہیں بابو جی مجھ سے نہیں پیا جاتا۔“
”تیرا تو سسر بھی پئے گا۔ “ وہ مذاق سے کہتے۔
”تو پھر آپ پی لیجئے نا۔“ اندو ہنستی ہوئی جواب دیتی اور بابو جی ایک مصنوعی غصے سے
برس پڑتے۔ ” تو چاہتی ہے بعد میں تیری بھی وہی حالت ہو جو تیری ساس کی ہوئی؟“
ہوں.... ہوں.... اندو لاڈ سے روٹھنے لگی۔ آخر کیوں نہ روٹھی۔ وہ لوگ نہیں روٹھتے
جنہیں منانے والا کوئی نہ ہو۔ لیکن یہاں منانے والے سب تھے، روٹھنے والا صرف ایک ۔
جب اندو بابو جی کے ہاتھ سے گلاس نہ لیتی تو وہ اسے کھٹیا کے پاس سرہانے کے نیچے
رکھ دیتے....اور ”لے یہ پڑا ہے’ ’ تیری مرضی ہے تو پی .... نہیں مرضی تو نہ پی....“
کہتے ہوئے چل دیتے۔
اپنے بستر پر پہنچ کر دھنی رام دلاری منی کے پاس کھیلنے لگتے۔ دلاری کو بابو جی کے
ننگے پنڈے کے ساتھ پنڈا گھسانے اور پھر پیٹ پر منہ رکھ کر پھنکڑا پھلانے کی عادت
تھی۔ آج جب بابو جی اور منی یہ کھیل کھیل رہے تھے ۔ ہنس ہنسا رہے تھے، تو منی نے
بھابی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ ”دودھ تو خراب ہو جائے گا بابو جی۔ بھابی تو پیتی
ہی نہیں۔“
”پئے گی ضرور پئے گی بیٹا....“ بابو جی نے دوسے ہاتھ سے پاشی کو لپٹاتے ہوئے کہا ۔
”عورتیں گھر کی کسی چیز کو خراب ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔“
ابھی یہ فقرہ بابو جی کے منہ ہی میں ہوتا کہ ایک طرف سے ”ہش.... ہے خصم کھالی“ کی
آواز آنے لگتی۔ پتہ چلتا بہو بلی کو بھگا رہی ہے اور پھر غٹ غٹ سی سنائے دیتی اور
سب جان لیتے بہو....بھابی نے دودھ پی لیا۔ کچھ دیر کے بعد کندن بابو جی کے پاس آتا
اور کہتا ”بوجی....بھابی رو رہی ہے۔“۔
|