|
اپنے دُکھ مجھے دے دو
(راجندر سنگھ بیدی)
”ہائیں؟“ بابو جی کہتے اور پھر اٹھ کر اندھیرے میں دور اسی طرف دیکھنے لگتے جدھر
بہو کی چارپائی پڑی ہوتی۔ کچھ دیر یوں ہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ پھر لیٹ جاتے اور
کچھ سمجھتے ہوئے کندن سے کہتے۔ ”جا....تو سو جا.... وہ بھی سو جائے گی اپنے آپ۔“
اور پھر لیٹتے ہوئے بابو دھنی رام آسمان پر کھلے ہوئے پرماتما کے گلزار کودیکھنے
لگتے اور اپنے من میں بھگوان سے پوچھتے....“ چاندی کے ان کھلتے بند ہوئے ہوئے ....
پھولوں میں میرا پھول کہا ہے؟“ اور پھر پورا آسمان انہیں درد کا ایک دریا دکھائی
دینے لگتا اور کانوں میں مسلسل ایک ہاو ¿ کی آواز سنائی دیتی۔ جسے سنتے ہوئے وہ
کہتے۔”جب سے دنیا بنی ہے انسان کتنارویا ہے!“ اور روتے روتے سو جاتے۔
اندو کے جانے سے بیس پچیس روز ہی میں مدن نے واویلا شروع کردیا۔ اس نے لکھا۔ میں
بازار کی روٹیاں کھاتے کھاتے تنگ آگیا ہوں۔ مجھے قبض ہو گئی ہے۔ گردے کا درد شروع
ہو گیا ہے۔ پھر جیسے دفتر کے لوگ چھٹی کی عرضی کے ساتھ ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ بھیج دیتے
ہیں۔ مدن نے بابو جی کے ایک دوسرے سے تصدیق کی چھٹی لکھوا بھیجی۔ اس پر بھی جب کچھ
نہ ہوا تو ایک ڈبل تار.... جوابی۔
جوابی تار کے پیسے مارے گئے لیکن بلا سے۔ اندو اور بچے لوٹ آئے تھے۔مدن نے اندو سے
دو دن سیدھے منہ بات ہی نہ کی۔ یہ دکھ بھی اندو ہی کا تھا۔ ایک دن مدن کو اکیلے میں
پا کر وہ پکڑ بیٹھی اور بولی۔ ”اتنا منہ پھلائے بیٹھے ہو.... میں نے کیا کیاہے؟“
مدن نے اپنے آپ کو چھڑاتے ہوئے کہا۔ ”چھوڑ.... دور ہو جا میر آنکھوں سے
....کمی....“
”یہی کہنے کے لئے اتنی دور سے بلوایاہے؟“
”ہاں!“
”ہٹاو ¿ اب۔“
”خبردار....یہ سب تمہارا ہی کیا دھرا ہے جو تم آنا چاہتی تو کیا بابو جی روک لیتے؟“
اندو نے بے بسی سے کہا۔ ”ہائے جی.... تم بچوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ میں انہیں بھلا
کیسے کہہ سکتی تھی؟ سچ پوچھو تو تم نے مجھے بلوا کر بابو جی پر تو بڑا جلم کیا ہے۔“
”کیامطلب ؟“
”مطلب کچھ نہیں.... ان کا جی بہت لگا ہوا تھا بال بچوں میں۔“
”اور میرا جی؟“
”تمہارا جی؟“ .... تم تو کہیں بھی لگا سکتے ہو۔ اندو نے شرارت سے کہا اور اس طرح سے
مدن کی طرف دیکھا کہ اس کی مدافعت کی ساری قوتیں ختم ہو گئیں۔ یوں بھی اسے کسی اچھے
سے بہانے کی تلاش تھی۔ا س نے اندو کو پکڑ کر سینے سے لگا لیا۔ اور بولا۔ ”بابو جی
تم سے بہت خوش تھے؟“
”ہاں“ اندو بولی۔ ”ایک دن میں جاگی تو دیکھا سرہانے کھڑے مجھے دیکھ رہے ہیں۔“
”یہ نہیں ہو سکتا۔“
”اپنی قسم!“
”اپنی قسم نہیں.... میری قسم کھاو ¿۔“
”تمہاری قسم تو میں نہیں کھاتی.... کوئی کچھ بھی دے۔“
”ہاں!“ مدن نے سوچتے ہوئے کہا۔ ”کتابوں میں اسے سیکس کہتے ہیں۔“
”سیکس؟“ اندو نے پوچھا وہ کیا ہوتا ہے؟۔
|