|
اپنے دُکھ مجھے دے دو
(راجندر سنگھ بیدی)
”وہی جو مرد اور عورت کے بیچ ہوتا ہے۔“
”ہائے رام!“ اندو نے ایک دم پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔ ”گندے کہیں کے .... شرم نہیں آئی
بابو جی کے بارے میں ایسا سوچتے ہوئے؟“
”تو بابوجی کو نہ آئی تجھے دیکھتے ہوئے؟“
”کیوں؟“ اندو نے بابو جی کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔ ”وہ اپنی بہو کودیکھ کر خوش ہو
رہے ہوں گے۔“
”کیوں نہیں۔ جب بہو تم ایسی ہو۔“
”تمہارا من گنداہے۔ اندو نے نفرت سے کہا۔ اس لئے تمہاا کاروبار بھی گندے بروزے کا
ہے۔ تمہاری کتابیں سب گندگی سے بھری پڑ ی ہیں۔ تمہیں اور تمہاری کتابوں کو اس کے
سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے تو جب میں بڑی ہو گئی تھی تو میرے پتا جی نے مجھ سے
ادھک پیار کر نا شروع کردیا تھا۔ تو کیاوہ بھی.... وہ تھا نگوڑا.... جس کا تم ابھی
نام لے رہے تھے۔“ اور پھر اندو بولی۔ ”بابو جی کو یہاں بلا لو۔ ان کا وہاں جرا بھی
جی نہیں لگتا۔ وہ دکھی ہوں گے تو کیا تم دکھی نہیں ہوگے؟“
مدن اپنے باپ سے بہت پیا ر کرتا تھا۔ گھر میں ماں کی موت نے بڑا ہونے کے کارن سب سے
زیادہ اثر مدن پر ہی کیا تھا۔ اسے اچھی طرح سے یاد تھا۔ ماں کے بیمار رہنے کے باعث
جب بھی اس کی موت کا خیال مدن کے دل میں آتا تو آنکھیں موند کر پرارتھنا شروع
کردیتا.... اوم نمو بھگوتے دا سوویوا۔ اوم نمو.... اب وہ نہیں چاہتا تھا کہ باپ کی
چھتر چھایا بھی سر سے اٹھ جائے۔ خاص طور پر ایسے میں جبکہ وہ اپنے کاروبار کو بھی
جما نہیں پایا تھا۔ اس نے غیر یقینی لہجے میں اندو سے صرف اتنا کہا۔ ”ابھی رہنے دو
بابو کو ۔ شادی کے بعد ہم دونوں پہلی بار آزادی کے ساتھ مل سکتے ہیں۔“
تیسرے چوتھے روز بابوجی کا آنسوو ¿ں میں ڈوبا ہوا خط آیا۔ میرے پیارے مدن کے تخاطب
میں میرے پیارے کے الفاظ شور پانیوں میں دھل گئے تھے۔ لکھا تھا۔ ”بہو کے یہاں ہونے
پر میر ے تو وہی پرانے دن لوٹ آئے تھے، تمہاری ماں کے دن، جب ہماری نئی شادی ہوئی
تھی تو وہ بھی ایسی ہی الھڑ تھی۔ ایسے میں اتارے ہوئے کپڑے ادھر ادھر پھینک دیتی۔
اور پتا جی سمیٹتے پھرتے۔ وہی صندل کا صندوق، وہی بیسویں خلجن.... میں بازار جا رہا
ہوں۔ آرہا ہوں۔ کچھ نہیں تو دہی بڑے یا ربڑی لا رہاہوں۔ اب گھر میں کوئی نہیں۔ وہ
جگہ جہاں صندلکا صندوق پڑا تھا، خالی ہے....“ اور پھر ایک آدھ سطر اور دھل گئی تھی۔
آخر میں لکھا تھا۔ ”دفتر سے لوٹتے سمے، یہاں کے بڑے بڑے اندھے کمروں میں داخل ہوتے
ہوئے میرے من میں ایک ہول سا اٹھتا ہے۔ ....“ اور پھر.... ”بہوکا خیال رکھنا۔ اسے
کسی ایسی ویسی دایہ کے حوالے مت کرنا۔“
اندو نے دونوں ہاتھوں سے چٹھی پکڑ لی۔ سانس کھینچ لی، آنکھیں پھیلاتی شرم سے پانی
پانی ہوتی ہوئی بولی۔ ”میں مر گئی۔ بابو جی کو کیسے پتہ چل گیا؟“
مدن نے چٹھی چھڑاتے ہوئے کہا۔ ”بابو جی کیا کہتے ہیں؟.... دنیا دیکھی ہے۔ ہمیں پیدا
کیاہے۔
”ہاں مگر۔“ اندو بولی۔ ”ابھی دن ہی کے ہوئے ہیں۔“
اور پھر اس نے ایک تیز سی نظر اپنے پیٹ پر ڈالی جس نے ابھی بڑھنا بھی شروع نہیں کیا
تھا اور جیسے بابو جی یا کوئی اور دیکھ رہاہو۔ اس نے ساری کا پلو اس پر کھینچ لیا۔
اور کچھ سوچنے لگی۔ جبھی ایک چمک سی اس کے چہرے پر آئی اور وہ بولی۔”تمہاری سسرال
سے شیرینی آئے گی۔“
”میری سسرال؟“.... اور ہاں۔ مدن نے راستہ پاتے ہوئے کہا۔ ”کتنی شرم کی بات ہے ۔ابھی
چھ آٹھ مہینے شادی کے ہوئے ہیں اور چلا آرہا ہے۔ “اور اس نے اندو کے پیٹ کی طرف
اشارہ کیا۔
مدن کی ٹانگیں ابھی تک کانپ رہی تھیں۔ اس وقت خوف سے نہیں....تسلی سے۔
|