|
اپنے دُکھ مجھے دے دو
(راجندر سنگھ بیدی)
بیگم بولی۔ ”خیر مہر ہے.... میں نے ابھی تک اسے لڑکی ہی بتائی ہے....زچہ زیادہ خوش
ہو جائے تو ا س کی آنول نہیں گرتی نا۔“
”تو....“ مدن نے بیوقوفوں کی طرح آنکھیں جھپکتے ہوئے کہا اور کمرے میں جانے کے لئے
آگے بڑھا۔ بیگم نے اسے وہیں روک دیا اور کہنے لگی۔ ”تمہارا اندر کیا کام؟“ اور پھر
ایکا ایکی دروازہ بھیڑ کر اندر لپک گئی۔ یا شاید اس لئے کہ جب کوئی اس دنیا میں آتا
ہے تو ارد گرد کے لوگوں کی یہی حالت ہوئی ہے۔ مدن نے سن رکھا تھا جب لڑکا پیدا ہوتا
ہے تو گھر کے در و دیوار لرزنے لگتے ہیں ۔ گویا ڈر رہے ہیں کہ بڑا ہو کر ہمیں بیچے
گا یا رکھے گا۔ مدن نے محسوس کیا کہ جیسے سچ مچ ہی دیواریں کانپ رہی تھیں.... زچگی
کے لئے چکلی بھابی تو نہ آئی تھیں کیونکہ اس کا اپنا بچہ تو بہت چھوٹا تھا البتہ
دریا آباد والی پھوپھی ضرور پہنچی تھیں جس نے پیدائش کے وقت رام، رام، رام ، رام کی
رٹ لگا دی تھی اور اب وہی رٹ مدھم ہو رہی تھی ۔
زندگی بھر مدن کو اپنا آپ اس قدر فضول اور بیکار نہ لگا تھا۔ اتنے میں پھر دروازہ
کھلا اور پھوپھی نکلی۔ برآمدے کی بجلی کی مدھم روشنی میں اس کا چہرہ بھوت کے چہرے
کی طرح ایک دم دودھیا نظرآرہا تھا۔ مدن نے اس کا راستہ روکتے ہوئے کہا.... ”اندو
ٹھیک ہے نا پھوپھی۔“
”ٹھیک ہے ٹھیک ہے ٹھیک ہے! پھوپھی نے تین چار بار کہا اور پھر اپنا لرزتا ہوا ہاتھ
مدن کے سر پر رکھ کر اسے نیچا کیا، چوما اور باہر لپک گئی....“
پھوپھی برآمدے کے دروازے میں سے باہر جاتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ وہ بیٹھک میں پہنچی
جہاں باقی بچے سو رہے تھے۔ پھوپھی نے ایک ایک کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور پھر
چھت کی طرف آنکھیں اٹھا کر منہ میں کچھ بولی اور پھر نڈھال سی ہو کر منی کے پاس لیٹ
گئی۔
اوندھی.... اس کے پھڑکتے ہوئے شانوں سے پتہ چل رہا تھا جیسے رو رہی ہے۔ مدن حیران
ہوا.... پھوپھی تو کئی زچگیوں سے گزر چکی ہے، پھر کیوں اس کی روح کانپ اٹھی ہے....
پھر ادھر کے کمرے سے ہر مل کی بو باہر لپکی۔ دھوئیں کا ایک غبار سا آیا۔ جس نے مدن
کا احاطہ کرلیا۔ اس کا سر چکرا گیا۔ جبھی بیگم دایہ کپڑے میں کچھ لپیٹے ہوئے باہر
نکلی۔ کپڑے پر خون ہی خون تھا۔ جس میں کچھ قطرے نکل کر فرش پر گر گئے۔ مدن کے ہوش
اڑ گئے۔ اسے معلوم نہ تھاکہ وہ کہا ں ہے۔آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور کچھ دکھائی نہ
دے رہا تھا۔ بیچ میں اندو کی ایک نر گھلی سی آواز آئی۔
”ہائے.... ئے....“ اور پھر بچے کے رونے کی آواز۔“
تین چار دن میں بہت کچھ ہوا۔ مدن نے گھر کے ایک طرف گڑھا کھو د کر آنول کو دبا دیا۔
کتوں کو اندر آنے سے روکا لیکن اسے کچھ یاد نہ تھا۔ اسے یوں لگا جیسے ہرمل کی بو
دماغ میں بس جانے کے بعد آج ہی اسے ہوش آیا ہے، کمرے میں وہ اکیلا ہی تھا اور
اندو.... نند اور جسووھا.... اور دوسری طرف نندلال....اندو نے بچے کی طرف دیکھا اور
کچھ ٹوہ لینے کے سے انداز میں بولی۔ ”بالک تم ہی پر گیا ہے۔“
”ہوگا۔“ مدن نے ایک اچٹتی ہوئی نظر بچے پر ڈالتے ہوئے کہا۔ ”میں تو کہتا ہوں شکر ہے
بھوان کا کہ تم بچ گئیں۔“
”ہاں!“ اندو بولی۔ ”میں تو سمجھتی تھی....“
”شبھ شبھ بولو۔“مدن نے ایک دم اندو کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”یہاں تو جو کچھ ہوا
ہے.... میں تو اب تمہارے پاس بھی نہیں پھٹکوں گا۔“ اور مدن نے زبان دانتوں تلے دبا
لی۔“
”توبہ کرو۔“ اندو بولی۔
مدن نے اسی دم کان اپنے ہاتھ سے پکڑ لئے.... اور اندو نحیف آواز میں ہنسنے لگی۔
بچہ ہونے کے کئی روز تک اندو کی ناف ٹھکانے پر نہ آئی۔ وہ گھوم گھوم کر اس بچے کی
تلاش کر رہی تھی جو اب اس سے پرے، باہر کی دنیا میں جا کر اپنی اصلی ماں کو بھول
گیا تھا۔ اب سب کچھ ٹھیک تھا اور اندو شانتی سے اس دنیا کو تک رہی تھی....۔
|