|
اپنے دُکھ مجھے دے دو
(راجندر سنگھ بیدی)
انہیں اگر کوئی پروں کے اندر سمیٹتی ہے تو
اندو....
نالی کے کنارے پڑے پڑے مدن نے سوچا اب تو یہ دنیا میرے لئے ختم ہوگئی ہے۔ کیا میں
جی سکوں گا؟ زندگی میں کبھی ہنس بھی سکوں گا؟ وہ اٹھا اور اٹھ کر گھر کے اندر چلا
آیا۔
سیڑھیوں کے نیچے غسل خانہ تھا جس میں گھس کر اندر سے کواڑ بند کرتے ہوئے مدن نے ایک
بار پھر اس سوال کو دہرایا.... ”میں کبھی ہنس بھی سکوں گا؟“ اور وہ کھل کھلا کر ہنس
رہا تھا۔ حالانکہ اس کے باپ کی لاش ابھی پاس ہی بیٹھک میں پڑی تھی۔
باپ کو آگ میں حوالے کرنے سے پہلے مدن ارتھی پر پڑے ہوئے جسم کے سامنے ڈنڈوت کے
انداز میںلیٹ گیا۔ یہ اس کا اپنے جنم داتا کو آخری پرنام تھا۔ تس پر بھی وہ رونہ
رہا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ماتم میں شریک ہونے والے رشتہ دار محلہ سن سے رہ
گئے ۔ پھر ہندو راج کے مطابق سب سے بڑا بیٹا ہونے کی حیثیت سے مدن کو چتا جلانی پڑی
۔ جلتی ہوئی کھوپڑی میں کپال کرپا کی لاٹھی مارنی پڑتی.... عورتیں باہر ہی سے شمشان
کے کنویں پرسے نہا کر لوٹ چکی تھیں۔ جب مدن گھر پہنچا تو وہ کانپ رہا تھا ۔ دھرتی
ماں نے تھوڑی دیر کخے لئے جو طاقت اپنے بیٹے کو دی تھی ۔ رات گھر کے گھر آنے پر پھر
سے ہول میں ڈھل گئی.... اسے کوئی سہارا چاہیے تھا۔کسی ایسے جذبے کا سہارا جو موت سے
بھی بڑا ہو۔ اس وقت دھرتی ماں کی بیٹی جنک دلاری اندو نے کسی گھڑے میں سے پیدا ہو
کر اس رام کو اپنی بانہوں میں لے لیا.... اس رات کو اگر اندواپنا آپ یوںپر نثار نہ
کرتی تو اتنا بڑا دکھ مدن کو لے ڈوبتا۔
دس ہی مہینے کے اندر اندر کا دوسرا بچہ چلا آیا۔ بیوی کو اس دوزخ کی آگ میں دھکیل
کر خود اپنا دکھ بھول گیا تھا۔ کبھی کبھی اسے خیال آتا اگر میں شادی کے بعد بابو جی
کے پاس گئی ہوتی تو اندو کو نہ بلا لیتا تو شاید وہ اتنی جلدی نہ چل دیتے۔ لیکن پھر
وہ باپ کی موت سے پیدا ہونے والے خسارے کو پورا کرنے میں لگ جاتا.... کاروبار جو
پہلے بے توجہی کی وجہ سے بند ہو گیا تھا....مجبوراً چل نکلا....
ان دنوں بڑے بچے کو مدن کے پاس چھوڑ کر، چھوٹے کو چھاتی سے گلے لگائے اندو میکے چلی
گئی۔ پیچھے منا طرح طرح کی ضد کرتا تھا۔جو کبھی مانی جاتی تھی اور کبھی نہیں بھی۔
میکے سے اندو کا خط آیا.... مجھے یہاں اپنے بیٹے کے رونے کی آواز آرہی ہے، اسے کوئی
مارتا نہیں؟ مدن کو بڑی حیرت ہوئی.... ایک جاہل ان پڑھ عورت ....ایسی باتیں کیسے
لکھ سکتی ہے؟ پھر اس نے اپنے آپ سے پوچھا....کیا یہ بھی کوئی رٹا ہوا فقرہ ہے....؟
سال گزر گئے۔ پیسے کبھی اتنے نہ آئے کہ ان میں سے کچھ پیش ہو سکے۔ لیکن گزارے کے
مطابق آمدنی ضرور ہو جاتی تھی۔ وقت اس وقت پر ہوتی جب کوئی بڑا خرچ سامنے آجاتا....
کندن کا داخلہ دینا ہے، دلاری منی کا شگن بھجوانا ہے۔ اس وقت مدن منہ لٹکا کا بیٹھ
جاتا اور پھر اندو ایک طرف سے آتی مسکراتی ہوئی۔اور کہتی ”کیوں دکھی ہو رہے ہو؟“
مدن امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا۔ ”دکھینہ ہوں؟ کندن کا بی اے کا
داخلہ دینا ہے ....منی.... “ اندو پھر ہنستی اور کہتی۔ ”چلو میرے ساتھ۔“ اور مدن
بھیڑ کے بچے کی طرح اندو کے پیچھے چل دیتا۔ اندو صندل کے صندوق کے پاس پہنچتی جسے
کسی کو، مدن سمیت ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی۔ کبھی کبھی اس بات پر خفا ہو کر مدن
کہتا۔ ”مروگی تو اسے بھی چھاتی پر ڈال کے لے جانا۔“اور اندو کہتی۔ ”ہاں! لے جاو ¿ں
گی۔“ پھر اندرو ہاں سے مطلوبہ رقم نکال کرکر رقم سامنے رکھ دیتی۔
”یہ کہاں سے آگئے؟“
”کہیں سے بھی.... تمہیں آم کھانے سے مطلب ہے۔“
”پھر بھی؟“
”تم جاو ¿ اپنا کام چلاو ¿۔“
اور جب مدن زیادہ اصرار کرتا تو اندو کہتی۔ ”میں نے ایک سیٹھ دوست بنایا ہے نا۔“
اور پھر ہنسنے لگتی۔۔
|