|
اپنے دُکھ مجھے دے دو
(راجندر سنگھ بیدی)
”یوں ہی“ اندو نے کہا اور بچی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ ”رات بھر جگایا ہے اس
چڑیل میا نے۔“
بچی اب تک خاموش ہو چکی تھی۔ گویا وہ دم سادھے دیکھ رہی تھی۔ اب کیا ہونے والا ہے؟
آسمان سے پانی پڑنا بند ہو گیا تھا؟ واقعی آسمان سے پانی پڑنا بند ہو گیا تھا۔ مدن
نے پھر غور سے اندو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ”ہاں مگر یہ آنسو؟“
”خوشی کے ہیں“ اندو نے جوا ب دیا۔ آج کی رات میری ہے۔ اور پھر ایک عجیب سی ہنسی
ہنستے ہوئے وہ مدن سے چمٹ گئی۔ ایک تلذذ کے احساس سے مدن نے کہا۔ ”آج برسوں کے بعد
میرے من کی مراد پوری ہوئی اندو! میں نے ہمیشہ چاہا تھا....“
”لیکن تم نے کہا نہیں۔“ اندو بولی۔ ”یاد ہے شادی والی رات میںنے تم نے سے کچھ مانگا
تھا؟“
”ہاں!“ مدن بولا۔ ”اپنے دکھ مجھے دے دو۔“
”تم نے کچھ نہیں مانگا مجھ سے....“
” میں نے ؟“ مدن نے حیران ہوتے ہوئے کہا ”میں کیا مانگتا؟ میں توجو کچھ مانگ سکتا
تھاوہ سب تم نے دے دیا۔ میرے عزیزوں سے پیار.... ان کی تعلیم، بیاہ شادیاں.... یہ
پیارے پیارے بچے.... یہ کچھ تو تم نے دے دیا۔“
”میں بھی یہی سمجھتی تھی۔“ اندو بولی ”لیکن اب جا کر پتہ چلا، ایسا نہیں۔“
”کیا مطلب؟“
”کچھ نہیں۔“ پھر اندو نے رک کر کہا۔ “ میں نے بھی ایک چیز رکھ لی۔“
”کیا چیز رکھ لی؟“
اندو کچھ دیر چپ رہی اور پھر اپنا منہ پرے کرئے ہوئے بولی ”اپنی لاج.... اپنی
خوشی.... اس وقت تم بھی کہہ دیتے.... اپنے سکھ مجھے دے دو.... تو میں....“ اور اندو
کا گلا رندھ گیا۔
اور کچھ دیر بعد بولی۔ ”اب تو میرے پاس کچھ بھی نہیں رہا۔“
مدن کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ وہ زمین میں گڑ گیا۔ یہ ان پڑھ عورت ؟....
کوئی رٹاہوا فقرہ....؟ نہیں تو .... یہ تو ابھی ہی زندگی کی بھٹی سے نکلا ہے۔ ابھی
تو اس پر برابر ہتھوڑے پڑ رہے ہیں اور آتشیں برادہ چاروں طرف اڑ رہاہے....
کچھ دیر بعد مدن کے ہوش ٹھکانے آئے اور بولا ۔ ”میں سمجھ گیا اندو“ پھر روتے ہوئے
مدن اور اندو ایک دوسرے سے لپٹ گئے.... اند و نے مدن کا ہاتھ پکڑا اور اسے ایسی
دنیاو ¿ں میں لے گئی جہاں انسان مر کر ہی پہنچ سکتا ہے۔
|