|
بلاؤز
(سعادت حسن منٹو)
کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے
وقت ، باتیں کرتے ہوئے ، حتیٰ کہ سوچتے ہوئے بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس
ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر وہ بیان کرنا چاہتا تو نہ کر سکتا۔
بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ ایک دم چونک پڑتا۔ دھندلے دھندلے خیالات جو عام حالتوں
میں بے آواز بلبلوں کی طرح پیدا ہو کر مٹ جایا کرتے ہیں مومن کے دماغ میں بڑے شور
کے ساتھ پیدا ہوتے اور شورہی کے ساتھ پھٹتے۔ اس کے دل و دماغ کے نرم و نازک پردوں
پر ہر وقت جیسے خار دار پاو ¿ں والی چیونٹیاں سی رینگتی رہتی تھیں۔ ایک عجیب قسم کا
کھنچاو ¿ اس کے اعضا میں پیدا ہو گیا تھا۔ جس کے باعث اسے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ اس
تکلیف کی شدت جب بڑھ جاتی تو اس کے جی میں آتا کہ اپنے آپ کو ایک بڑے سے ہان میں
ڈال دے اور کسی سے کہے کہ مجھے کوٹا شروع کردیں۔“
باورچی خانے میں گرم مصالحہ جات کوٹتے وقت جب لوہے سے لوہا ٹکراتا اور دھمکیوں سے
چھت میں ایک گونج سی دوڑ جاتی تو مومن کے ننگے پیروں کو یہ لرزش بہت بھلی معلوم
ہوتی ۔ پیروں کے ذریعے یہ لرزش اس کی تنی ہوئی پنڈلیوں اور رانوں میں دوڑتی ہوئی اس
کے دل تک پہنچ جاتی جو تیز ہوا میں رکھے ہوئے دئیے کی لو کی طرح کانپنا شروع
کردیتا۔
مومن کی عمر پندرہ برس تھی۔ شاید سولہواں بھی لگا ہو۔ اسے اپنی عمر کے متعلق صحیح
اندازہ نہیں تھا۔ وہ ایک صحت مند اور تندرست لڑکا تھا جس کا لڑکپن تیزی سے جوانی کے
میدان کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اسی دوڑ نے جس سے مومن بالکل غافل تھا اس کے لہو کے ہر
قطرے میں سنسنی پیدا کردی۔ وہ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا مگر ناکام رہتا۔
اس کے جسم میں کئی تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ گردن جو پہلے پتلی تھی اس موٹی ہوگئی تھی۔
بانہوں کے پٹھوں میں اینٹھن سی پیدا ہو گئی تھی۔ کنٹھ نکل رہاتھا۔ سینے پر گوشت کی
موٹی تہہ ہو گئی تھی اور اب کچھ دنوں سے پستانوں میںگولیاں سی پڑ گئی تھیں۔ جگہ
ابھر آئی تھی جیسے کسی نے ایک بنٹا اندر داخل کر دیا ہے۔ ان ابھاروں کو ہاتھ لگانے
سے مومن کو بہت درد محسوس ہو تا تھا ۔ کبھی کھبی کام کرنے دورا ن میں غیر ارادی طور
پر جب کا ہاتھ ان گولیوں سے چھو جاتا تو وہ تڑپ اٹھتا۔ قمیض کے موٹے اور کھردرے
کپڑے سے بھی اس کی تکلیف دہ سرسراہٹ محسوس ہوتی تھی۔
غسل خانے میں نہاتے وقت یا باورچی خانہ میں جب کوئی اورموجودنہ ہوتا۔ مومن اپنے
قمیض کے بیٹن کھول کر ان گولیوں کو غور سے دیکھتا۔ ہاتھوں سے مسلتا۔ درد ہوتا،
ٹیسیں اٹھتیں جیسے جسم پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ کی طرح زور سے ہلا دیا گیا ہو۔ کانپ
کانپ جاتا مگر اس کے باوجود وہ اس درد پیدا کرنے والے کھیل میں مشغول رہتا۔ کبھی
کبھی زیادہ دبانے پر یہ گولیاں پچک جاتیں اور ان کے منہ سے ایک لیس دار لعاب نکل
آتا۔ اس کو دیکھ کر اس کا چہرہ کان کی لوو ¿ں تک سرخ ہو جاتا۔ وہ یہ سمجھتا کہ اس
کوئی گناہ سر زد ہو گیا ہے۔ گناہ اور ثواب کے متعلق مومن کا علم بہت محدود تھا۔ ہر
وہ فعل جو ایک انسان دوسرے انسان کے سامنے نہ کر سکتا ہو۔ اس کے خیال کے مطابق گناہ
تھا۔ چنانچہ جب شرم کے مارے اس کا چہرہ کان کی لوو ¿ں تک سرخ ہو جاتا تو وہ جھٹ سے
اپنی قمیض کے بٹن بند کرلیتا اور دل میں عہد کرتا کہ آئندہ ایسی فضول حرکت کبھی
نہیں کر ے گا لیکن اس عہد کے باوجود دوسرے یا تیسرے روز تخلیے میں وہ پھر اسی کھیل
میں مشغول ہو جاتا۔
|