|
بلاؤز
(سعادت حسن منٹو)
شکیلہ ہر کام بڑے اہتمام اور
چاؤ سے کرتی تھی۔ جب سینے پرونے بیٹھتی تو اس کی
نشست بڑی پر اطمینان ہوتی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن رضیہ کی طرح وہ افرا تفری پسند نہیں
کرتی تھی۔ ایک ایک ٹانکا سوچ سمجھ کر بڑے اطمینان سے لگاتی تھی تاکہ غلطی کا امکان
نہ رہے۔ پیمائش بھی اس کی بہت صحیح تھی۔ اس لئے کہ پہلے کاغذ کاٹ کر پھر کپڑا کاٹتی
تھی یوں وقت زیادہ صرف ہو تا ہے مگر چیز بالکل فٹ تیار ہوتی تھی۔
شکیلہ بھر ے بھرے جسم کی صحت مند لڑکی تھی ، ہاتھ بہت گدگدے تھے۔ گوشت بھری مخروطی
انگلیوں کے آخر میں ہر جوڑ پر ایک ننھا گڑھا تھا جب مشین چلاتی تھی تو یہ ننھے گڑھے
ہاتھ کی حرکت سے کبھی کبھی غائب ہو جاتے تھے۔
شکیلہ مشین بھی بڑے اطمینان سے چلاتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی دو یا تین انگلیاں بڑی
صفائی کے ساتھ مشین کی ہتھی گھماتی تھیں۔ کلائی میں ایک ہلکا سا خم پیدا ہو جاتا
تھا۔ گردن ذرا ایک طرف کو جھک جاتی تھی اور بالوں کی ایک لٹ جسے شاید اپنے لئے کوئی
مستقل جگہ نہیں ملتی تھی نیچے پھسل آتی تھی۔ شکیلہ اپنے کام میں اس قدر منہمک رہتی
کہ اسے ہٹانے یا جمانے کی کوشش ہی نہیں کرتی تھی۔
جب شکیلہ اودی ساٹن سامنے پھیلاکر اپنے ماپ کا بلاو ¿ز تراشنے لگی تو اس ٹیپ کی
ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ ان کا ٹیپ گھس گھسا کر اب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔
لوہے کا گز موجود تھا مگر اس سے کمر اور سینے کی پیمائش کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کے
اپنے کئی بلاو ¿ز موجودے تھے مگر اب چونکہ وہ پہلے سے کچھ موٹی ہو گئی تھی اس لئے
ساری پیمائش دوبارہ کرنا چاہتی تھی۔
قمیض اتار کر اس نے مومن کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس سے کہا ”جاو ¿ مومن دوڑ کر چھ
نمبر سے کپڑے کا گز لے آو ¿۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہے“۔
مومن کی نگاہیں شکیلہ کی سفید بنیان سے ٹکرائیں۔ وہ کئی بار بار شکیلہ بی بی کو
ایسی بنیانوں میں دیکھ چکا تھا۔ مگر آج اسے ایک عجیب قسم کی جھجک محسوس ہوئی۔ اس نے
اپنی نگاہوں کا رخ دوسری طرف پھیر لیا اور گھبراہٹ میں کہا۔ ”کیسا گز بی بی جی۔“
شکیلہ نے جواب دیا” کپڑے کا گز....ایک گز تو یہ تمہارے سامنے پڑا ہے۔ یہ لوہے کا
ہے۔ ایک دوسرا گز بھی ہوتا ہے کپڑے کا ۔ جاو ¿ چھ نمبر میں جاو ¿ اور دوڑ کے ان سے
یہ گز لے آو ¿۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہے۔“
چھ نمبر کا فلیٹ بالکل قریب تھا۔ مومن فوراً ہی کپڑے کا گز لے کر آگیا۔ شکیلہ نے اس
کے ہاتھ سے لے لیا او کہا ”یہاں ٹھہر جا۔ اسے ابھی واپس لے جانا۔“ پھر وہ اپنی بہن
رضیہ سے مخاطلب ہوئی۔ ان لوگوں کی کوئی چیز اپنے پاس رکھ لی جائے تو وہ بڑھیا تقاضے
کر کے پریشان کردیتی ہے....ادھر آو ¿ یہ گز لو اور یہاں سے میرا ماپ لو۔
رضیہ نے شکیلہ کی کمر اور سینے کا ماپ لینا شروع کیا تو ان کے درمیان کئی باتیں
ہوئیں۔ مومن دروازے کی دہلیز پر کھڑا تکلیف دہ خاموشی سے یہ باتیں سنتا رہا۔
”رضیہ تم گز کو کھینچ کر ماپ کیو نہیں لیتیں....پچھلی دفعہ بھی یہی ہوا۔ جب تم نے
ماپ لیا اور میرے بلاو ¿ز کا ستیا ناس ہوگیا.... اوپر کے حصہ پر اگر کپڑا فٹ نہ آئے
تو ادھر ادھر بغلوں میں جھول پڑ جاتے ہیں۔“
” کہاں کا لوں، کہاں کانہ لوں۔ تم تو عجب مخمصے میں ڈال دیتی ہو ۔ یہاں کا ماپ لینا
شروع کیا تھا تو تم نے کہا ذرا اور نیچے کا لو.... ذرا چھوٹا بڑا ہو گیا تو کون سی
آفت آجائے گی۔“
”بھئی واہ....چیز کے فٹ ہونے ہی میں ساری خوبصورتی ہوتی ہے۔ ثریا کو دیکھو کیسے فٹ
کپڑے پہنتی ہے۔ مجال ہے جو کہیں شکن پڑے، کتنے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ایسے
کپڑے....لو اب تم ماپ لو....“۔
|