|
بلاؤز
(سعادت حسن منٹو)
شکیلہ کو ہنستے دیکھ کر مومن کوایک عجیب تسکین محسوس ہوئی اور اس تسکین نے اس کے دل
میں یہ خواہش پیدا کی کہ وہ کوئی ایسی مضحکہ خیز طور پراحمقانہ حرکت کرے جس سے
شکیلہ کو اور زیادہ ہنسنے کاموقع ملے چنانچہ لڑکیوں کی طرح جھینپ کر اور لہجے میں
شرماہٹ پیدا کرکے اس نے کہا۔ ”بڑی بی بی جی سے پیسے لے کر میں ریشمی رومال بھی لوں
گا۔“
شکیلہ نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا۔ ”کیا کرو گے اس رومال کو ؟“
مومن نے جھینپ کر جوا ب دیا۔ ”گلے میں باندھ لو ں گا بی بی جی.... بڑا اچھا معلوم
ہو گا۔“
یہ سن کر شکیلہ اور رضیہ دونوں دیر تک ہنستی رہیں۔
”گلے میں باندھو گے تو یاد رکھنا اسی سے پھانسی دے دوں گی“ یہ کہہ کر شکیلہ نے اپنی
ہنسی دبانے کی کوشش کی اور رضیہ سے کہا۔ ”کم بخت نے مجھے کام ہی بھلا دیا۔ رضیہ میں
نے اسے کیوں بلایا تھا؟“
رضیہ نے جواب نہ دیا اور نئی فلمی طرز گنگنانا شروع کردی جو وہ دو روز سے سیکھ رہی
تھی۔ اس دوران میں شکیلہ کو خود ہی یاد آگیا کہ اس نے مومن کو کیوں بلا یاتھا۔
”دیکھو مومن میں تمہیں یہ بنیان اتار کر دیتی ہوں۔ دوائیوں کے پاس جو ایک دکان نئی
کھلی ہے نا، وہاں جہاں تمہ اس دن میرے ساتھ گئے تھے۔ وہاں جاو ¿ اور پوچھ کے آو ¿
کہ ایسی چھ بنیانوں کے وہ کیا لے گا....کہنا ہم چھ لیں گے۔ اس لئے کچھ رعایت ضرور
کرے....سمجھ لیا نا؟“
”مومن نے جواب دیا۔ ”جی ہاں“۔
”اب تم پرے ہٹ جاو ¿۔“
مومن باہر نکل کر دروازے کی اوٹ میں ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد بنیان اس کے قدموں کے
پاس آگرا اوراندر سے شکیلہ کی آوازآئی۔ ”کہنا ہم اس قسم کی ہی ڈیزائن کی بالکل یہی
چیزلیں گے۔ فرق نہیں ہونا چاہیے۔“
مومن نے بہت اچھا کہہ کر بنیان اٹھا لیا جو پسینے کے باعث کچھ کچھ گیلا ہو رہا تھا
جیسے کسی نے بھاپ پر رکھ کر فوراً ہی اٹھا لیا ہو۔ بدن کی بو بھی اس میں بسی ہوئی
تھی۔ میٹھی میٹھی گرمی بھی تھی۔ یہ تمام چیزیں اس کو بہت بھلی معلوم ہوئیں۔
وہ اس بنیان کو جو بلی کے بچے کی طرح ملائم تھا۔ اپنے ہاتھوں میں مسلتا ہوا باہر
چلا گیا۔ جب بھاو ¿ دریافت کر کے بازار سے واپس آیا تو شکیلہ بلاو ¿ز کی سلائی شروع
کر چکی تھی۔ اس اودی، اودی ساٹن کے بلاو ¿ز کی جو مومن کی رومی ٹوپی کے پھندنے سے
کہیں زیادہ چمکیلی اور لچک دار تھی۔
یہ بلاو ¿ز شاید عید کے لئے تیار کیا جارہا تھا کیونکہ عید اب بالکل قریب آگئی تھی۔
مومن کو ایک دن میں کئی بار بلا گیا۔ دھاگہ لانے کے لئے ، استری نکالنے کے لئے ،
سوئی ٹوٹ گئی تو نئی سوئی لانے کےلئے ، شام کے قریب جب شکیلہ نے دوسرے روز پر باقی
کام اٹھا دیا تو دھاگے کے ٹکڑے اور اودی ساٹن کی بیکار کترنیں اٹھانے کے لئے بھی
اسے بلایا گیا۔
مومن نے اچھی طرح جگہ صاف کردی ۔ باقی سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دیں مگر ساٹن کی
چمکیلی کترنیں اپنی جیب میں رکھ لیں....بالکل بے مطلب کیونکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ
وہ ان کو کیا کر ے گا؟
دوسرے روز اس نے جیب سے کترنیں نکالیں اورالگ بیٹھ کر ان کے دھاگے الگ کرنے شروع
کردئیے۔ دیر تک وہ اس کھیل میں مشغول رہا۔ حتیٰ کہ دھاگے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوںکا
ایک گچھا سا بن گیا۔ اس کو ہاتھ میں لے کر وہ دباتا رہا، مسلتا رہا۔ لیکن اس کے
تصور میں شکیلہ کی وہی بغل تھی جس میں اس نے کالے کالے بالوں کا ایک چھوٹا سا گچھا
دیکھا تھا۔
اس دن بھی اسے شکیلہ نے کئی بار بلایا....اودی ساٹن کے بلاو ¿ز کی ہر شکل اس کی
نگاہوں کے سامنے آتی رہی۔۔
|