|
عید گاہ
(منشی پریم چند)
رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید آئی۔ کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے۔بچہ کی
طرح پر تبسم درختوں پر کچھ عجیب ہریاول ہے۔ کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے۔ آسمان پر
کچھ عجیب فضا ہے۔ آج کا آفتا ب دیکھ کتنا پیارا ہے گویا دُنیا کو عید کی خوشی پر
مبارکباد دے رہا ہے۔ گاو ¿ں میں کتنی چہل پہل ہے۔ عید گاہ جانے کی دھوم ہے کسی کے
کرتے میں بٹن نہیں ہیں تو سوئی تاگا لینے دوڑے جا رہا ہے۔ کسی کے جوتے سخت ہو گئے
ہیں۔ اسے تیل اور پانی سے نرم کر رہا ہے۔ جلدی جلدی بیلوں کو سانی پانی دے دیں۔ عید
گاہ سے لوٹتے لوٹتے دوپہر ہو جائے گی۔ تین کوس کا پیدل راستہ پھر سینکڑوں رشتے
قرابت والوں سے ملنا ملانا۔ دوپہر سے پہلے لوٹنا غیر ممکن ہے۔ لڑکے سب سے زیادہ خوش
ہیں۔ کسی نے ایک روزہ رکھا ، وہ بھی دوپہر تک۔ کسی نے وہ بھی نہیں۔ لیکن عید گاہ
جانے کی خوشی ان کا حصہ ہے۔ روزے بڑے بوڑھوں کے لیے ہوں گے، بچوں کے لیے تو عید ہے۔
روز عید کا نام رٹتے تھے آج وہ آگئی۔ اب جلدی پڑی ہوئی ہے کہ عید گاہ کیوں نہیں
چلتے۔انہیں گھر کی فکروں سے کیا واسطہ؟ سویّوں کیلئے گھر میں دودھ اور شکر میوے ہیں
یا نہیں، اس کی انہیں کیا فکر؟ وہ کیا جانیں ابا کیوں بدحواس گاو ¿ںکے مہاجن چودھری
قاسم علی کے گھر دوڑے جا رہے ہیں، انکی اپنی جیبوں میں تو قارون کا خزانہ رکھا ہوا
ہے۔ بار بار جیب سے خزانہ نکال کر گنتے ہیں۔ دوستوں کو دکھاتے ہیں اور خوش ہو کر
رکھ لیتے ہیں۔ ان ہی دو چار پیسوں میں دُنیا کی سات نعمتیں لائیں گے۔ کھلونے اور
مٹھائیاں اور بگل اور خدا جانے کیا کیا ۔ سب سے زیادہ خوش ہے حامد۔ وہ چار سال کا
غریب صورت بچہ ہے، جس کا باپ پچھلے سال ہیضہ کی نذر ہو گیا تھا اور ماں نہ جانے
کیوں زرد ہوتی ہوتی ایک دن مر گئی۔ کسی کو پتہ نہ چلا کہ بیماری کیا ہے؟ کہتی کس
سے؟ کون سننے والا تھا؟ دل پر جو گزرتی تھی سہتی تھی اور جب نہ سہا گیا تو دُنیا سے
رُخصت ہو گئی۔ اب حامد اپنی بوڑھی دادی امینہ کی گود میں سوتا ہے اور اتنا ہی خوش
ہے ۔ اس کے ابا جان بڑی دُور روپے کمانے گئے تھے اور بہت سی تھیلیاں لے کر آئیں گے۔
امی جان اللہ میاں کے گھر مٹھائی لینے گئی ہیں۔ اس لےے خاموش ہے۔ حامد کے پاو ¿ں
میں جوتے نہیں ہیں۔ سر پر ایک پرانی دھرانی ٹوپی ہے جس کا گوٹہ سیاہ ہو گیا ہے۔ پھر
بھی وہ خوش ہے۔ جب اس کے ابّاجان تھیلیاں اور اماں جان نعمتیں لے کر آئیں گے تب وہ
دل کے ارمان نکالے گا۔ تب دیکھے گا کہ محمود اور محسن آذر اور سمیع کہاں سے اتنے
پیسے لاتے ہیں۔ دُنیا میں مصیبتوں کی ساری فوج لے کر آئے، اس کی ایک نگاہِ معصوم
اسے پامال کرنے کےلئے کافی ہے۔
حامد اندر جا کر امینہ سے کہتا ہے، ”تم ڈرنا نہیں امّاں! میں گاو ¿ں والوں کا ساتھ
نہ چھوڑوں گا۔ بالکل نہ ڈرنا۔ لیکن امینہ کا دل نہیں مانتا۔ گاو ¿ں کے بچے اپنے
اپنے باپ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ حامد کیا اکیلا ہی جائے گا۔ اس بھیڑ بھاڑ میں کہیں
کھو جائے تو کیا ہو؟ نہیں ....امینہ اسے تنہا نہ جانے دے گی۔ ننھی سی جان۔ تین کوس
چلے گا تو پاو ¿ں میں چھالے نہ پڑ جائیں گے؟
مگر وہ چلی جائے تو یہاں سوّیاں کون پکائے گا، بھوکا پیاسا دوپہر کو لوٹے گا، کیا
اس وقت سوّیاں پکانے بیٹھے گی۔ رونا تو یہ ہے کہ امینہ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔اس نے
فہمین کے کپڑے سیے تھے۔ آٹھ آنے پیسے ملے تھے۔ اس اٹھنی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی
آئی تھی اس عید کے لیے۔ لیکن گھر میں پیسے اور نہ تھے اور گوالن کے پیسے اور چڑھ
گئے تھے، دینے پڑے۔ حامد کے لیے روز دو پیسے کا دودھ تو لینا پڑتاہے اب کُل دو آنے
پیسے بچ رہے ہیں۔
|