|
عید گاہ
(منشی پریم چند)
سمیع: سنا ہے چودھری صاحب کے قبضہ میں بہت سے جنات ہیں۔ کوئی چیز چوری چلی جائے۔
چودھری صاحب اس کا پتہ بتا دیں گے۔ اور چور کا نام تک بتا دیں گے۔ جمعراتی کا بچھڑا
اس دن کھو گیا تھا۔ تین دن حیران ہوئے، کہیں نہ ملا، تب جھک مار کر چودھری کے پاس
گئے۔ چودھری نے کہا، مویشی خانہ میں ہے اور وہیں ملا۔ جنات آکر انہیں سب خبریں دے
جایا کرتے ہیں۔
اب ہر ایک کی سمجھ میں آ گیا کہ چودھری قاسم علی کے پاس کیوں اس قدر دولت ہے اور
کیوں وہ قرب و جوار کے مواضعات کے مہاجن ہیں۔ جنات آکر انہیں روپے دے جاتے ہیں ۔
آگے چلئے یہ پولیس لائن ہے۔ یہاں پولیس والے قواعد کرتے ہیں۔ رائٹ لپ، پھام پھو۔
نوری نے تصحیح کی، ”یہاں پولیس والے پہرہ دیتے ہیں۔ جب ہی تو انہیں بہت خبر ہے۔ اجی
حضرت یہ لوگ چوریاں کراتے ہیں۔ شہر کے جتنے چور ڈاکو ہیں سب ان سے ملے رہتے ہیں۔
رات کو سب ایک محلّہ میں چوروں سے کہتے ہیں اور دوسرے محلّہ میں پکارتے ہیں جاگتے
رہو۔ میرے ماموں صاحب ایک تھانہ میں سپاہی ہیں۔ بیس روپے مہینہ پاتے ہیں لیکن
تھیلیاں بھر بھر گھر بھیجتے ہیں۔ میں نے ایک بار پوچھا تھا،ماموں اتنے روپے آپ
چاہیں تو ایک دن میں لاکھوں بار لائیں۔ ہم تو اتنا ہی لیتے ہیں جس میں اپنی بدنامی
نہ ہو اور نوکری بنی رہے۔
حامد نے تعجب سے پوچھا، ”یہ لوگ چوری کراتے ہیں تو انہیں کوئی پکڑتانہیں؟ “ نوری نے
اس کی کوتاہ فہمی پر رحم کھاکر کہا، ”ارے احمق! انہیں کون پکڑے گا، پکڑنے والے تو
یہ خود ہیں۔ لیکن اللہ انہیں سزا بھی خوب دیتا ہے۔ تھوڑے دن ہوئے ماموں کے گھر میں
آگ لگ گئی۔ سارا مال متاع جل گیا۔ایک برتن تک نہ بچا۔ کئی دن تک درخت کے سائے کے
نیچے سوئے، اللہ قسم پھر نہ جانے کہاں سے قرض لائے تو برتن بھانڈے آئے۔“
بستی گھنی ہونے لگی۔ عید گاہ جانے والوں کے مجمع نظر آنے لگے۔ ایک سے ایک زرق برق
پوشاک پہنے ہوئے۔ کوئی تانگے پر سوار کوئی موٹر پر چلتے تھے تو کپڑوں سے عطر کی
خوشبو اُڑتی تھی۔
دہقانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سرو سامانی سے بے حس اپنی خستہ حالی میں مگر
صابر و شاکر چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار
ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔
وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہو گئی ہے ۔ املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے نیچے
کھلا ہوا پختہ فرش ہے۔ جس پر جاجم بچھا ہوا ہے۔ اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے
دوسرے خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔ کئی قطاریں
کھڑی ہیں۔ جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں
کوئی رُتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی
وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک
ساتھ جھکتے ہیں ، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں۔ اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا
معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ
بجھ جائیں۔ کتنا پر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد
دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو
منسلک کیے ہوئے ہے۔
نماز ختم ہو گئی ہے لوگ باہم گلے مل رہے ہیں ۔ کچھ لوگ محتاجوں اور سائلوں کو خیرات
کر رہے ہیں۔ جو آج یہاں ہزاروں جمع ہو گئے ہیں۔ ہمارے دہقانوں نے مٹھائی اور
کھلونوں کی دُکانوں پر یورش کی۔ بوڑھے بھی ان دلچسپیوں میں بچوں سے کم نہیں ہیں
یہ دیکھو ہنڈولا ہے ایک پیسہ دے کر آسمان پر جاتے معلوم ہوں گے۔ کبھی زمین پر گرتے
ہیں یہ چرخی ہے لکڑی کے گھوڑے، اُونٹ، ہاتھی منجوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک پیسہ دے
کر بیٹھ جاو ¿ اور پچیس چکروں کا مزہ لو۔ محمود اور محسن دونوں ہنڈولے پر بیٹھے
ہیں۔ آذر اور سمیع گھوڑوں پر۔“
|