|
عید گاہ
(منشی پریم چند)
ان کے بزرگ اتنے ہی طفلانہ اشتیاق سے چرخی پر بیٹھے
ہیں۔ حامد دور کھڑا ہے تین ہی پیسے تو اس کے پاس ہیں۔ ذرا سا چکر کھانے کے لیے وہ
اپنے خزانہ کا ثلث نہیں صرف کر سکتا۔ محسن کا باپ بار بار اسے چرخی پر بلاتا ہے
لیکن وہ راضی نہیں ہوتا۔ بوڑھے کہتے ہیں اس لڑکے میں ابھی سے اپناپرایا آ گایا
ہے۔حامد سوچتا ہے، کیوں کسی کا احسان لوں؟ عسرت نے اسے ضرورت سے زیادہ ذکی الحس بنا
دیا ہے۔ سب لو گ چرخی سے اُترتے ہیں۔ کھلونوں کی خرید شروع ہوتی ہے۔ سپاہی اور
گجریا اور راجہ رانی اور وکیل اور دھوبی اور بہشتی بے امتیاز ران سے ران ملائے
بیٹھے ہیں۔ دھوبی راجہ رانی کی بغل میں ہے اور بہشتی وکیل صاحب کی بغل میں۔ واہ
کتنے خوبصورت.... بولا ہی چاہتے ہیں۔ محمود سپاہی پر لٹو ہو جاتا ہے خاکی وردی اور
پگڑی لال، کندھے پر بندوق ، معلوم ہوتا ہے ابھی قواعد کے لیے چلا آ رہا ہے۔ محسن کو
بہشتی پسندآیا۔ کمر جھکی ہوئی ہے اس پر مشک کا دھانہ ایک ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہے۔
دوسرے ہاتھ میں رسی ہے،کتنا بشاش چہرہ ہے، شاید کوئی گیت گا رہا ہے۔ مشک سے پانی
ٹپکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ نوری کو وکیل سے مناسبت ہے۔ کتنی عالمانہ صورت ہے، سیاہ
چغہ نیچے سفید اچکن، اچکن کے سینہ کی جیب میں سنہری زنجیر، ایک ہاتھ میں قانون کی
کتاب لیے ہوئے ہے۔ معلوم ہوتا ہے، ابھی کسی عدالت سے جرح یا بحث کر کے چلے آ رہے
ہیں۔ یہ سب دو دو پیسے کے کھلونے ہیں۔ حامد کے پاس کل تین پیسے ہیں۔ اگر دو کا ایک
کھلونا لے لے تو پھر اور کیا لے گا؟ نہیں ....کھلونے فضول ہیں۔ کہیں ہاتھ سے گر پڑے
تو چور چور ہو جائے۔ ذرا سا پانی پڑ جائے تو سارا رنگ دُھل جائے۔ ان کھلونوں کو لے
کروہ کیا کرے گا، کس مصرف کے ہیں؟
محسن کہتا ہے، ”میرا بہشتی روز پانی دے جائے گا صبح شام۔“
نوری بولی، ”اور میرا وکیل روز مقدمے لڑے گا اور روز روپے لائے گا“
حامد کھلونوں کی مذمت کرتا ہے۔ مٹی کے ہی تو ہیں، گریں تو چکنا چور ہو جائیں، لیکن
ہر چیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ذرا دیر کے لیے انہیں
ہاتھ میں لے سکتا۔ یہ بساطی کی دوکان ہے، طرح طرح کی ضروری چیزیں ،ایک چادر بچھی
ہوئی ہے۔ گیند، سیٹیاں، بگل، بھنورے، ربڑ کے کھلونے اور ہزاروں چیزیں۔ محسن ایک
سیٹی لیتا ہے محمود گیند، نوری ربڑ کا بت جو چوں چوں کرتا ہے اور سمیع ایک خنجری۔
اسے وہ بجا بجا کر گائے گا۔ حامد کھڑا ہر ایک کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ جب اس کا
رفیق کوئی چیز خرید لیتا ہے تو وہ بڑے اشتیاق سے ایک بار اسے ہاتھ میں لے کر دیکھنے
لگتا ہے، لیکن لڑکے اتنے دوست نواز نہیں ہوتے۔ خاص کر جب کہ ابھی دلچسپی تازہ ہے۔
بے چارہ یوں ہی مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔
کھلونوں کے بعد مٹھائیوں کا نمبر آیا، کسی نے ریوڑیاں لی ہیں، کسی نے گلاب جامن،
کسی نے سوہن حلوہ۔ مزے سے کھا رہے ہیں۔ حامد ان کی برادری سے خارج ہے۔ کمبخت کی جیب
میں تین پیسے تو ہیں، کیوں نہیں کچھ لے کر کھاتا۔ حریص نگاہوں سے سب کی طرف دیکھتا
ہے۔
محسن نے کہا، ”حامد یہ ریوڑی لے جا کتنی خوشبودار ہیں۔“
حامد سمجھ گیا یہ محض شرارت کہے۔ محسن اتنا فیاض طبع نہ تھا۔ پھر بھی وہ اس کے پاس
گیا۔ محسن نے دونے سے دو تین ریوڑیاں نکالیں۔ حامد کی طرف بڑھائیں۔ حامد نے ہاتھ
پھیلایا۔ محسن نے ہاتھ کھینچ لیا اور ریوڑیاں اپنے منھ میں رکھ لیں۔ محمود اور نوری
اور سمیع خوب تالیاں بجا بجا کر ہنسنے لگے۔ حامد کھسیانہ ہو گیا۔ محسن نے کہا۔
”اچھا اب ضرور دیں گے۔ یہ لے جاو ¿۔ اللہ قسم۔“
حامد نے کہا، ”رکھیے رکھیے....کیا میرے پاس پیسے نہیں ہیں؟“
سمیع بولا، ”تین ہی پیسے تو ہیں، کیا کیا لوگے؟“
محمود بولا، ”تم اس سے مت بولو، حامد میرے پاس آو ¿۔ یہ گلاب جامن لے لو“
حامد: ”مٹھائی کون سی بڑی نعمت ہے۔ کتاب میں اسکی برائیاں لکھی ہیں۔“
|