|
عید گاہ
(منشی پریم چند)
”یہ دست پناہ کہاں تھا بیٹھا؟“
”میں نے مول لیا ہے، تین پیسے میں۔“
امینہ نے چھاتی پیٹ لی۔ ”یہ کیسا بے سمجھ لڑکا ہے کہ دوپہر ہو گئی۔ نہ کچھ کھایا نہ
پیا۔ لایا کیا یہ دست پناہ۔ سارے میلے میں تجھے اور کوئی چیز نہ ملی۔“
حامد نے خطاوارنہ انداز سے کہا، ”تمہاری انگلیاں توے سے جل جاتی تھیں کہ نہیں؟“
امینہ کا غصہ فوراً شفقت میں تبدیل ہو گیا۔ اور شفقت بھی وہ نہیں جو منہ پر بیان
ہوتی ہے۔ اور اپنی ساری تاثیر لفظوں میں منتشر کر دیتی ہے۔ یہ بے زبان شفقت تھی۔
درد التجا میں ڈوبی ہوئی۔ اُف کتنی نفس کشی ہے۔ کتنی جانسوزی ہے۔ غریب نے اپنے
طفلانہ اشتیاق کو روکنے کے لیے کتنا ضبط کیا۔جب دوسرے لڑکے کھلونے لے رہے ہوں گے،
مٹھائیاں کھا رہے ہوں گے، اس کادل کتنا لہراتا ہوگا۔ اتنا ضبط اس سے ہوا۔ کیونکہ
اپنی بوڑھی ماں کی یاد اسے وہاں بھی رہی۔ میرا لال میری کتنی فکر رکھتا ہے۔ اس کے
دل میں ایک ایسا جزبہ پیدا ہوا کہ اس کے ہاتھ میں دُنیا کی بادشاہت آ جائے اور وہ
اسے حامد کے اوپر نثار کر دے۔
اور تب بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ بڑھا امینہ ننھی سی امینہ بن گئی۔ وہ رونے لگی۔ دامن
پھیلا کر حامد کو دُعائیں دیتی جاتی تھی اور آنکھوں سے آنسو کی بڑی بڑی بوندیںگراتی
جاتی تھی۔ حامد اس کا راز کیاسمجھتا اور نہ شاید ہمارے بعض ناظرین ہی سمجھ سکیں گے۔۔
|