|
گڈریا
(اشفاق احمد)
دسویں میں صندلی نامہ، فسانہ ¿ آزاد اور الف لیلیٰ ساتھ
ساتھ چلتے تھے، فسانہ آزاد اور صندلی نامہ گھر پر رکھے تھے، لیکن الف لیلیٰ سکول کے
ڈیسک میں بند رہتی۔ آخری بینچ پر جغرافیہ کی کتاب تلے سند باد جہازی کے ساتھ ساتھ
چلتا اور اس طرح دنیا کی سیر کرتا....بائیس مئی کا واقعہ ہے کہ صبح دس بجے
یونیورسٹی سے نتیجہ کی کتاب ایم۔بی ہائی سکول پہنچی۔ امی چند، نہ صرف سکول میں بلکہ
ضلع بھر میں اول آیا تھا۔ چھ لڑکے فیل تھے اور بائیس پاس۔ حکیم جی کا جادویونیورسٹی
پر نہ چل سکا اور پنجاب کی جابر دانش گاہ نے میرا نام بھی ان چھ لڑکوں میں شامل
کردیا۔ اسی شام قبلہ گاہی نے بید سے میری پٹائی کی اورگھر سے باہر نکال دیا۔ میں
ہسپتال کے رہٹ کی گدی پر آبیٹھا اور رات گئے تک سوچتا رہا کہ اب کیا کرنا چاہیے اور
اب کدھر جانا چاہیے۔ خدا کا ملک تنگ نہیں تھا اور میں عمرو یار کے ہتھکنڈوں اور سند
باد جہازی کے تمام طریقوں سے واقف تھا مگر پھربھی کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تھی۔
کوئی دو تین گھنٹے اسی طرح ساکت وجامد اس گدی پر بیٹھا زیست کرنے کی راہیں سوچتا
رہا۔ اتنے میں اماں سفید چادر اوڑھے مجھے ڈھونڈتی ڈھونڈتی ادھر آگئیں اور اباجی سے
معافی لے دینے کا وعدہ کر کے مجھے پھر گھر لے گئیں۔ مجھے معافی وافی سے کوئی دلچسپی
نہ تھی، مجھے تو بس ایک رات ا ور ان کے یہاں گزارنی تھی۔ اور صبح سویرے اپنے سفرپر
روانہ ہونا تھا، چنانچہ میں آرام سے ان کے ساتھ جا کر حسب معمول اپنے بستر پر دراز
ہوگیا۔
اگلے دن میرے فیل ہونے ساتھیوں میں سے خوشیا کوڈو اور دیسو یب یب مسجد کے پچھواڑے
ٹال کے پاس بیٹھے ملے گئے ۔ وہ لاہورجا کر بزنس کرنے کا پرو گرام بنا رہے تھے۔ دیسو
یب یب نے مجھے بتایا کہ لاہور میں بڑا بزنس ہے کیونکہ اس کے بھایا جی اکثر اپنے
دوست فتح چند کے ٹھیکوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ جس نے سال کے اندراندر دو کاریں خرید
لی تھیں، میں نے ان سے بزنس کی نوعیت کے بارے میں پوچھا تو یب یب نے کہا لاہور میں
ہر طرح کا بزنس مل جاتا ہے۔ بس ایک دفتر ہونا چاہیے اور اس کے سامنے بڑا سا سائن
بورڈ۔ سائن بورڈ دیکھ کر لوگ خود ہی بزنس دے جاتے ہیں۔ اس وقت بزنس سے مراد وہ
کرنسی نوٹ لے رہا تھا۔
میں نے ایک مرتبہ پھر وضاحت چاہی تو کوڈو چمک کر بولا ” یار دیسو سب جانتا ہے۔ یہ
بتا، تو تیار ہے یا نہیں؟“
پھر اس نے پلٹ کر دیسو سے پوچھا ”انار کلی دفتر بنائیں گے نا؟“
دیسو نے ذرا سوچ کر کہا ”انار کلی میں یا شاہ عالمی کے باہر دونوں ہی جگہیں ایک سی
ہیں۔“
میں نے کہا انار کلی زیادہ مناسب ہے کیونکہ وہی زیادہ مشہور جگہ ہے اور اخباروں میں
جتنے بھی اشتہار نکلتے ہیں ان میں انار کلی لاہور لکھا ہوتا ہے۔“
چنانچہ یہ طے پایا کہ اگلے دن دو بجے کی گاڑی سے ہم لاہور روانہ ہوجائیں!
گھر پہنچ کر میں سفرکی تیاری کر نے لگا۔ بوٹ پالش کر رہا تھا کہ نوکر نے آکر شرارت
سے مسکراتے ہوئے کہا ”چلو جی ڈاکٹر صاحب بلاتے ہیں۔“
”کہاں ہیں؟“ میں نے برش زمین پر رکھ دیا اور کھڑا ہو گیا۔
”ہسپتال میں “ وہ بدستور مسکرا رہا تھا کیونکہ میری پٹائی کے روز حاضرین میں وہ بھی
شامل تھا۔
میں ڈرتے ڈرتے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھا۔پھر آہستہ سے جالی والا دروازہ کھول کر اباجی
کے کمرے میں داخل ہوا تو وہا ںان کے علاوہ داؤ جی بھی بیٹھے تھے۔ میں نے سہمے
سہمے داؤ جی کو سلام کیا اور اس کے جواب میں بڑی دیر کے بعد جیتے رہو کی مانوس
دعا سنی۔
”ان کو پہچانتے ہو؟“ اباجی نے سختی سے پوچھا۔
”بے شک“ میں نے ایک مہذب سیلزمین کی طرح کہا۔
”بے شک کے بچے، حرامزادے، میں تیری یہ سب....“۔
|