|
گڈریا
(اشفاق احمد)
”نہ نہ ڈاکٹرصاحب“ داؤ جی نے ہاتھ اوپر اٹھا کر کہا ”یہ تو بہت ہی اچھا بچہ ہے اس
کو تو ....“
اور ڈاکٹرصاحب نے بات کاٹ کر تلخی سے کہا ”آپ نہیں جانتے منشی جی اس کمینے نے میری
عزت خاک میں ملادی۔“
”اب فکر نہ کریں “ داؤ جی نے سر جھکائے کہا۔ ”یہ ہمارے آفتاب سے بھی ذہین ہے اور
ایک دن....“
اب کے ڈاکٹر صاحب کو غصہ آگیا اور انہوں نے میز پر ہاتھ مار کر کہا ”کیسی بات کرتے
ہومنشی جی! یہ آفتاب کے جوتے کی برابری نہیں کر سکتا۔“
”کرے گا، کرے گا....ڈاکٹر صاحب“ داؤ جی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا”آپ خاطر
جمع رکھیں۔“
پھر وہ اپنی کرسی سے اٹھے اور میرے کندھے پرہاتھ رکھ کر بولے ”میں سیر کو چلتا ہوں،
تم بھی میرے ساتھ آؤ، راستے میں باتیں کریں گے۔“
اباجی اسی طرح کرسی بیٹھے غصے کے عالم میں اپنا رجسٹر الٹ پلٹ کرتے اور بڑبڑاتے
رہے۔ میں نے آہستہ آہستہ چل کر جالی والا دروازہ کھولا تو داؤ جی نے پیچھے مڑ کر
کہا ”ڈاکٹر صاحب بھول نہ جائیے ابھی بھجوا دیجئے گا۔“
داؤ جی نے مجھے ادھر ادھر گھماتے اور مختلف درختوں کے نام فارسی میں بتاتے نہر کے
اسی پل پر لے گئے جہاں پہلے پہل میرا ان سے تعارف ہواتھا۔ اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ
کر انہوں نے پگڑی اتار کرگول میں ڈال لی سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے سامنے بیٹھنے کا
اشارہ کیا۔ پھرانہوںنے آنکھیں بند کرلیں اور کہا ”آج سے میں تمہیں پڑھاؤں گا اور
اگر جماعت میں اول نہ لا سکا تو فرسٹ ڈویژن ضرور دلوا دوں گا۔ میرے ہر ارادے میں
خدا وند تعالیٰ کی مدد شامل ہوتی ہے اور اس ہستی نے مجھے اپنی رحمت سے کبھی مایوس
نہیں کیا....“
”مجھ سے پڑھائی نہ ہوگی“ میں نے گستاخی سے بات کاٹی۔
”تو او ر کیا ہوگا گولو؟“ انہوں نے مسکرا کر پوچھا۔
میں نے کہا ”میں بزنس کروں گا، روپیہ کماؤں گا اور اپنی کار لے کر یہاں ضرور آؤں گا، پھر دیکھنا....“
اب کے داؤ جی نے میری بات کاٹی اور بڑی محبت سے کہا ”خدا ایک چھوڑ تجھے دس کاریں
دے لیکن ایک ان پڑھ کی کار میں نہ بیٹھوں گا نہ ڈاکٹر صاحب۔“
میں نے جل کر کہا ” مجھے کسی کی پرواہ نہیں ڈاکٹر صاحب اپنے گھر راضی، میں اپنے
یہاں خوش۔“
انہوںنے حیران ہو کر پوچھا ”میری بھی پرواہ نہیں؟“ میں کچھ کہنے ہی والاتھا کہ وہ
دکھی سے ہوگئے اور بار بار پوچھنے لگے۔ ”میری بھی پرواہ نہیں؟“
”او گولو میری بھی پرواہ نہیں؟“
مجھے ان کے لہجے پر ترس آنے لگا اور میں نے آہستہ سے کہا۔ آپ کی تو ہے مگر....“ مگر
انہوں نے میری بات نہ سنی اور کہنے لگے اگر اپنے حضرت کے سامنے میرے منہ سے ایسی
بات نکل جاتی؟ اگر میں یہ کفر کا کلمہ کہہ جاتا....تو ....تو ....“ انہوں نے فورا
پگڑی اٹھا کر سر پر رکھ لی اور ہاتھ جوڑ کہنے لگے۔ ” میں حضور کے دربار کا ایک
ادنیٰ کتا۔ میں حضرت مولانا کی خاک پا سے بد تر بندہ ہو کر آقا سے یہ کہتا۔ لعنت کا
طوق نہ پہنتا؟ خاندان ابو جہل کا خانوادہ اور آقا کی ایک نظر کرم۔ حضرت کا ایک
اشارہ۔ حضور نے چنتو کو منشی رام بنا دیا۔لوگ کہتے ہیں منشی جی، میں کہتا ہوں رحمة
اللہ علیہ کا کفش بردار....لوگ سمجھتے ہیں....“ داؤ جی کبھی ہاتھ جوڑتے، کبھی سر
جھکاتے کبھی انگلیاں چوم کر آنکھوں کو لگاتے اور بیچ بیچ میں فارسی کے اشعار پڑھتے
جاتے۔ میں کچھ پریشان سا پشیمان سا، ان کا زانو چھو کر آہستہ آہستہ کہہ رہاتھا ”داؤ جی! داؤ جی“ اور داؤ
جی ”میرے آقا، میرے مولانا، میرے مرشد“ کا وظیفہ کئے جاتے۔
|