|
گڈریا
(اشفاق احمد)
جب جذب کا یہ عالم دور ہوا تو نگاہیں اوپر اٹھا کر بولے ”کیا اچھا موسم ہے دن
بھر دھوپ پڑتی ہے تو خوشگوار شاموں کا نزول ہوتا ہے “ پھر وہ پل کی دیوار سے اٹھے
اور بولے ”چلو اب چلیں بازار سے تھوڑا سودا خریدنا ہے۔“ میں جیسا سرکش و بد مزاج بن
کر ان کے ساتھ آیا تھا، اس سے کہیں زیادہ منفعل اور خجل ان کے ساتھ لوٹا۔ گھمسے
پنساری یعنی دیسو یب یب کے باپ کی دکان سے انہوں نے گھریلو ضرورت کی چند چیزیں
خریدیں اور لفافے گود میں اٹھا کر چل دئیے، میں بار بار ان سے لفافے لینے کی کوشش
کرتا۔ مگر ہمت نہ پڑتی۔ ایک عجیب سی شرم ایک انوکھی سی ہچکچاہٹ مانع تھی اوراسی
تامل اور جھجک میں ڈوبتا ابھرتا میں ان کے گھر پہنچ گیا۔
وہاں پہنچ کر یہ بھید کھلا کہ اب میں انہی کے ہاں سویا کرو ں گا اور وہیں پڑھا کروں
گا۔ کیونکہ میرا بستر مجھ سے بھی پہلے وہاں پہنچا ہوا تھا اور اس کے پاس ہی ہمارے
یہاں سے بھیجی ہوئی ایک برمی کین لالٹین بھی رکھی تھی۔
بزنس مین بننا اور پاں پاں کرتی پیکارڈ اڑائے پھرنا میرے مقدر میں نہ تھا۔ گو میرے
ساتھیوں کی روانگی کے تیسرے ہی روز بعد ان کے والدین بھی انہیں لاہور سے پکڑ لائے
لیکن اگر میں ان کے ساتھ ہوتا تو شاید اس وقت انار کلی میں ہمارا دفتر، پتہ نہیں
ترقی کے کون سے شاندار سال میں داخل ہو چکا ہوتا۔
داؤ جی نے میری زندگی اجیرن کردی، مجھے تباہ کردیا، مجھ پر جینا حرام کردیا، سارا
دن سکول کی بکواس میں گزرتا، اور رات، گرمیوں کی مختصر رات، ان کے سوالات کا جواب
دینے، کوٹھے پر ان کی کھاٹ میرے بستر کے ساتھ لگی ہے، اور وہ مونگ، رسول اور مرالہ
کی نہروں کے بابت پوچھ رہے ہیں، میں نے بالکل ٹھیک بتادیا ہے، وہ پھر اسی سوال کو
دھرا رہے ہیں، میں نے پھر ٹھیک بتا دیا ہے اور انہوںنے پھر انہی نہروں کو آگے
لاکھڑا کیا ہے، میں جل جاتا اورجھڑک کر کہتا”مجھے نہیں پتہ میں نہیں بتایا“ تووہ
خاموش ہو جاتے اوردم سادھ لیتے، میں آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کرتا تووہ
شرمندگی کنکر بن کر پتلیوں میں اتر جاتی۔
میں آہستہ سے کہتا ”داؤ جی۔“
”ہوں“ ایک گھمبیر سی آواز آتی۔
’دداؤ جی کچھ اور پوچھو۔“
داؤ جی نے کہا ”بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔ اس کی ترکیب نحوی کرو۔“
میں نے سعادت مندی کے ساتھ کہا ”جی یہ تو بہت لمبا فقرہ ہے صبح لکھ کر بتا دوں گا
کوئی اور پوچھئے۔“
انہوں نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائے کہا ”میرا گولو بہت اچھا ہے۔“
میںنے ذر اسوچ کر کہنا شروع کیا بہت اچھا صفت ہے، حرف ربط مل کر بنا مسند....
اور داؤ جی اٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گئے۔ ہاتھ اٹھا کر بولے جان پدر، تجھے پہلے
بھی کہا ہے مسند الیہ پہلے بنایا ہے۔
میں نے ترکیب نحوی سے جان چھڑانے کے لئے پوچھا ”آپ مجھے جان پدر کیوں کہتے ہیں جان
داؤ کیوں نہیں کہتے؟“
”شاباش“ وہ خوش ہو کرکہتے ”ایسی باتیں پوچھنے کی ہوتی ہیں۔ جان لفظ فارسی کا ہے اور
داؤ بھاشاکا ۔ ان کے درمیان فارسی اضافت نہیں لگ سکتی۔ جو لوگ دن بدن لکھتے یا
بولتے ہیں سخت غلطی کرتے ہیں، روز بروز کہو یا دن پردن اسی طرح سے....“
اورجب میں سوچتا ک یہ تو ترکیب نحوی سے بھی زیادہ خطرناک معاملے میں الجھ گیا ہوں
تو جمائی لے کر پیار سے کہا ”داؤ جی اب تو نیند آرہی ہے!“
”اور وہ ترکیب نحوی؟“ وہ جھٹ سے پوچھتے۔۔
|