|
گڈریا
(اشفاق احمد)
اس کے بعد چاہے میں لاکھ بہانے کرتا ادھر ادھر کی ہزار باتیں کرتا، مگر وہ اپنی
کھاٹ پر ایسے بیٹے رہتے، بلکہ اگر ذرا سی دیر ہوجاتی تو کرسی پررکھی ہوئی پگڑی اٹھا
کر سر پر دھر لیتے۔ چنانچہ کچھ بھی ہوتا۔ ان کے ہر سوال کا خاطر خواہ جواب دینا
پڑتا۔
امی چند کالج چلا گیا تو اس کی بیٹھک مجھے مل گئی اور داؤ جی کے دل میں اس کی
محبت پر بھی میں نے قبضہ کرلیا۔ اب مجھے داؤ جی بہت اچھے لگنے لگے تھے۔ لیکن ان
کی باتیں جو اس وقت مجھے بری لگتی تھیں ۔ وہ اب بھی بری لگتی ہیں بلکہ اب پہلے سے
بھی کسی قدر زیادہ، شاید اس لئے کہ میں نفسیات کا ایک ہونہار طالب علم ہوں اور داؤ جی پرانے ملائی مکتب کے پروردہ تھے۔ سب سے بری عادت ان کی اٹھتے بیٹھتے سوال
پوچھتے رہنے کی تھی اور دوسری کھیل کود سے منع کرنے کی۔ وہ تو بس یہ چاہتے تھے کہ
آدمی پڑھتا رہے پڑھتارہے اور جب اس مدقوق کی موت کا دن قریب آئے تو کتابوں کے ڈھیر
پر جان دے دے۔ صحت جسمانی قائم رکھنے کے لئے ان کے پاس بس ایک ہی نسخہ تھا، لمبی
سیر اور وہ بھی صبح کی۔ تقریباً سورج نکلنے سے دو گھنٹے پیشتر وہ مجھے بیٹھک میں
جگانے آتے اور کندھا ہلاکر کہتے ”اٹھو گولو موٹا ہو گیا بیٹا“ دنیاجہاں کے والدین
صبح جگانے کے لئے کہا کرتے ہیں کہ اٹھو بیٹا صبح ہوگئی یاسورج نکل آیا مگروہ ”موٹا
ہو گیا“ کہہ کر میری تذلیل کیاکرتے، میں منمناتا توچمکار کر کہتے”بھدا ہو اجائے گا
بیٹا تو، گھوڑے پر ضلع کادورہ کیسا کرے گا!“ اور میں گرم گرم بستر سے ہاتھ جوڑ کر
کہتا ” داؤ جی خدا کے لئے مجھے صبح نہ جگاؤ، چاہے مجھے قتل کردو، جان سے مار
ڈالو۔“
یہ فقرہ ان کی سب سے بڑی کمزوری تھی وہ فوراً میرے سر پر لحاف ڈال دیتے اور باہر
نکل جاتے۔
بے بے کو ان داؤ جی سے اللہ واسطے کا بیر تھا اور داؤ جی ان سے بہت ڈرتے تھے،
وہ سارا دن محلے والیوں کے کپڑے سیا کرتیں اور داؤ جی کو کوسنے دئیے جائیں۔ ان کی
اس زبان درازی پرمجھے بڑا غصہ آتا تھا مگردریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہ ہو سکتا
تھا۔ کبھی کبھار جب وہ ناگفتنی گالیوں پر اتر آتیں تو داؤ جی میری بیٹھک میں
آجاتے اور کانوں پر ہاتھ رکھ کر کرسی پر بیٹھ جاتے۔ تھوڑی دیر بعد کہتے ”غیبت کرنا
بڑا گناہ ہے۔ لیکن میرا خدا مجھے معاف کرے تیری بے بے بھٹیارن ہے اور اس کی سرائے
میں، میں ، میری قرة العین اور تھوڑا تھوڑا ، توبھی، ہم تینوں بڑے عاجز مسافر ہیں۔
“ اور واقعی بے بے بھٹیارن سی تھی۔ ان کا رنگ سخت کالا تھا اور دانت بے حد سفید،
ماتھا محراب دار اور آنکھیں چنیاں سی۔ چلتی تو ایسی گربہ پائی کے ساتھ جیسے (خدا
مجھے معاف کرے) کٹنی کنسوئیاں لیتی پھرتی ہے۔ بچاری بی بی کو ایسی ایسی بری باتیں
کہتی کہ وہ دو دو دن رو رو کر ہلکان ہوا کرتی۔ ایک امی چند کے ساتھ اس کی بنتی تھی
شاید اس وجہ سے ہم دونوں ہم شکل تھے یا شاید اس وجہ سے کہ اس کو بی بی کی طرح اپنے
داؤ جی سے پیارنہ تھا۔ یوں تو بی بی بے چاری بہت اچھی لگتی تھی مگر اسے سے میری
بھی نہ بنتی۔ میں کوٹھے پر بیٹھا سوال نکال رہا ہوں، داؤ جی نیچے بیٹھے ہیں اور
بی بی اوپر برساتی سے ایندھن لینے آئی تو ذرا رک کر مجھے دیکھا پھر منڈیر سے جھانک
کر بولی، داؤ جی! پڑھ تونہیں رہا، تنکوں کی طرح چارپائیاں بنا رہا ہے۔“
میں غصیل بچے کی طرح منہ چڑا کر کہتا ”تجھے کیا ، نہیں پڑھتا، تو کیوں بڑ بڑ کرتی
ہے....آئی بڑی تھانیدارنی۔“
اور داؤ جی نیچے سے ہانک لگا کر کہتے ” نہ گولو مولو بہنوں سے جھگڑا نہیں کرتے۔“
اور میں زور سے چلاتا ”پڑھ رہا ہوں جی، جھوٹ بولتی ہے۔“
داؤ جی آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آجاتے اور کاپیوں کے نیچے نیم پوشیدہ
چارپائیاں دیکھ کر کہتے ”قرة بیٹا تو اس کو چڑایا نہ کر۔ یہ جن بڑی مشکل سے قابو
کیاہے۔ اگر ایک بار بگڑ گیا تو مشکل سے سنبھلے گا۔“
بی بی کہتی ”کاپی اٹھا کر دیکھ لو داؤ جی اس کے نیچے ہے وہ چارپائی جس سے کھیل
رہا تھا۔“
میں قہر آلو نگاہوں سے بی بی کو دیکھتا اور وہ لکڑیاں اٹھا کر نیچے اتر جاتی۔ پھر
داؤ جی سمجھاتے کہ بی بی یہ کچھ تیرے فائدے کے لئے کہتی ہے۔ ورنہ اسے کیا پڑی ہے
کہ مجھے بتاتی پھرے۔ فیل ہویا پاس اس کی بلا سے! مگر وہ تیری بھلائی چاہتی ہے، تیری
بہتری چاہتی ہے اور داؤ جی کی یہ بات ہر گز سمجھ میں نہ آتی تھی۔ میری شکایتیں
کرنے والی میری بھلائی کیونکر چاہ سکتی تھی!۔
|