|
گڈریا
(اشفاق احمد)
ان دنوں معمول یہ تھا کہ صبح دس بجے سے پہلے داؤ جی کے ہاں سے چل دیتا۔ گھر جا کر
ناشتہ کرتا اور پھر سکول پہنچ جاتا۔ آدھی چھٹی پر میرا کھانا سکول بھیج دیا جاتا
اور شام کو سکول بند ہونے پر گھر آکے لالٹین تیل سے بھرتا اور داؤ جی کے یہاں
آجاتا۔ پھر رات کا کھانا بھی مجھے داؤ جی کے گھر ہی بھجوا دیا جاتا۔ جن ایام میں
منصفی بند ہوتی، داؤ جی سکول کی گراؤنڈ میں آکر بیٹھ جاتے اور میرا انتظار کر
نے لگتے۔ وہاں سے گھر تک سوالات کی بوچھاڑ رہتی
سکول میں جو کچھ پڑھایا گیا ہوتا اس کی تفصیل پوچھتے، پھر مجھے گھر تک چھوڑ کر خود
سیر کو چلے جاتے۔ ہمارے قصبہ میں منصفی کا کام مہینے میں دس دن ہوتا تھا اور بیس دن
منصف صاحب بہادر کی کچہری ضلع میں رہتی تھی۔ یہ دس دن داؤ جی باقاعدہ کچہری میں
گزارتے تھے۔ ایک آدھ عرضی آجاتی تو دو چار روپے کما لیتے ورنہ فارغ اوقات میں وہاں
بھی مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھتے۔ بے بے کا کام اچھا تھا ۔ اس کی کتربیونت اور محلے
والوں سے جوڑ توڑ اچھے مالی نتائج پیدا کرتی تھی۔ چونکہ پچھلے چند سالوں سے گھر کا
بیشتر خرچ اس کی سلائی سے چلتا تھا۔ اس لئے داؤ جی اور بھی حاوی ہو گئی تھی....
ایک دن خلاف معمول داؤ جی کو لینے میں منصفی چلا گیا۔ اس وقت کچہری بند ہو گئی
تھی اور داؤ جی نانبائی کے چھپرتلے ایک بینچ پر بیٹھے گڑ کی چائے پی رہے تھے۔ میں
نے ہولے سے جا کر ان کا بستہ اٹھا لیا اور ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا ”چلئے،
آج میں آپ کو لینے آیا ہوں“ انہوںنے میری طرف دیکھے بغیر چائے کے بڑے بڑے گھونٹ
بھرے، ایک آنہ جیب سے نکال کر نانبائی کے حوالے کیا اور چپ چاپ میرے ساتھ چل دئیے۔
میں نے شرارت سے ناچ کر کہا ”گھر چلئے، بے بے کو بتاؤں گا کہ آپ چوری چوری یہاں
چائے پیتے ہیں۔“
داؤ جی جیسے شرمندگی ٹالنے کو مسکرائے اور بولے ”اس کی چائے بہت اچھی ہوتی ہے اور
گڑ کی چائے سے تھکن بھی دور ہو جاتی ہے پھر یہ ایک آنہ میں گلاس بھر کے دیتا ہے۔ تم
اپنی بے بے نہ کہنا، خواہ مخواہ ہنگامہ کھڑا کر دے گی، پھر انہوں نے خوفزدہ ہو کر
کچھ مایوس ہو کر کہا ”اس کی تو فطرت ہی ایسی ہے“۔ اس دن مجھے داؤ جی پر رحم آیا۔
میرا جی ان کے لئے بہت کچھ کرنے کو چاہنے لگا مگر اس میں میں نے بے بے سے نہ کہنے
کا ہی وعدہ کرکے ان کے کے لئے بہت کچھ کیا۔جب اس واقعہ کا ذکر میں نے اماں سے کیا
تو وہ بھی کبھی میرے ہاتھ اور کبھی نوکر کی معرفت داؤ جی کے ہاں دودھ، پھل اور
چینی وغیرہ بھیجنے لگیں مگر اس رسد سے داؤ جی کو کبھی بھی کچھ نصیب نہ ہوا۔ ہاں
بے بے کی نگاہوں میں میری قدر بڑھ گئی اور اس نے کسی حد تک مجھ سے رعایتی برتاؤ
شروع کردیا۔“
مجھے یاد ہے ، ایک صبح میں دودھ سے بھرا تاملوٹ ان کے یہاں لے کرآیا تھا اور بے بے
گھر نہ تھی۔ وہ اپنی سکھیوں کے ساتھ بابا ساون کے جوہڑ میں اشنان کرنے گئی تھی۔ اور
گھر میں صرف داؤ جی اور بی بی تھے۔ دودھ دیکھ کر داؤ جی نے کہا ”چلو آج تینو ں
چائے پئیں گے۔ میں دکان سے گڑ لے کر آتاہوں ، تم پانی چولہے پر رکھو“۔ بی بی نے
جلدی سے چولہا سلگایا۔ میں پتیلی میں پانی ڈال کر لایا اور پھر ہم دونوں وہیں چوکے
پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔داؤ جی گڑ لے کر آگئے توانہوں نے کہا”تم دونوں اپنے
اپنے کام پر بیٹھوچائے میں بناتا ہوں۔“چنانچہ بی بی مشین چلانے لگی اور میں ڈائریکٹ
ان ڈائریکٹ کی مشقیں لکھنے لگا۔ داؤ جی چولہا بھی جھونکتے جاتے تھے اور عادت کے
مطابق مجھے بھی اونچے اونچے بتاتے جاتے تھے گلیلیو نے کہا ”زمین سورج کے گرد گھومتی
ہے“۔ گلیلیو نے دریافت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ یہ نہ لکھ دینا کہ سورج
کے گرد گھومتی ہے پانی ابل رہا تھا داؤ جی خوش ہو رہے تھے۔ اسی خوشیمیں جھوم جھوم
کر وہ اپنا تازہ بنایا ہوا گیت گا رہے تھے۔ او گولو! او گولو! گلیلیو کی بات مت
بھولنا، گلیلیو کی بات مت بھولنا۔ انہوں نے چائے کی پتی کھولتے ہوئے پانی میں ڈال
دی۔ برتن ابھی تک چولہے پر ہی تھا اورداؤ
جی ایک چھوٹے سے بچے کی طرح پانی کی گلب گل بل کے ساتھ گولو گلیلیو! گولو گلیلیو
کئے جارہے تھے، میں ہنس رہا تھا اور اپنا کام کئے جا رہا تھا، بی بی مسکرارہی تھی
اورمشین چلائے جاتی تھی اور ہم تینوں اپنے چھوٹے سے گھرمیں بڑے ہی خوش تھے گویا
سارے محلے بلکہ سارے قصبہ کی خوشیاں بڑے بڑے رنگین پروں والی پریوں کی طرح ہمارے
گھرمیں اتر آئی ہوں۔۔
|