|
گڈریا
(اشفاق احمد)
کہنے لگے ”میں تمہارا کیا تھا اور کیا ہو گیا....حضرت مولانا کی
پہلی آواز کیا تھی! میری طرف سر مبارک اٹھا کر فرمایا ، چوپال زادے ہمارے پاس آؤ،
میں لاٹھی ٹیکتا ان کے پاس جا کھڑا ہوا۔ چھتہ پٹھار اور دیگر دیہات کے لڑکے نیم
دائرہ بنائے ان کے سامنے بیٹھے سبق یاد کر رہے تھے۔ ایک دربار لگا تھا، اور کسی کو
آنکھ اوپر اٹھانے کی ہمت نہ تھی.... میں حضور کے قریب گیا تو فرمایا، بھئی ہم تم کو
روز یہاں بکریاں چراتے دیکھتے ہیں۔ انہیں چرنے چگنے کے لئے چھوڑ کر ہمارے پاس آجایا
کرو اور کچھ پڑھ لیا کرو.... پھر حضور نے میری عرض سنے بغیر پوچھا کہ کیا نام ہے
تمہارا؟“ میں نے گنواروں کی طرح کہا چنتو.... مسکرائے....تھوڑا سا ہنسے بھی....
فرمانے لگے پورا نام کیا ہے؟ پھر خود ہی بولے چنتو رام ہوگا.... میں نے سر ہلا
دیا.... حضور کے شاگرد کتاب سے نظریں چرا کر میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میرے گلے میں
کھدر کا لمبا سا کرتہ تھا۔ پائجامہ کی بجائے صرف لنگوٹ بندھا تھا۔ پاؤں میں
ادھوڑی کے موٹے جوتے اور سر پر سرخ رنگ کا جانگیہ لپیٹا ہوا تھا۔ بکریاں میری....“
میں نے بات کاٹ کرپوچھا ”آپ بکریاں چراتے تھے داؤ جی؟“
”ہاں ہاں “ وہ فخر سے بولے ”میں گڈریاتھا اور میرے باپ کی بارہ بکریاں تھیں۔“
حیرانی سے میرا منہ کھلا رہ گیا او رمیں نے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے جلدی سے
پوچھا۔ ”اور آپ سکول کے پاس بکریاں چرایا کرتے تھے۔“داؤ جی نے کرسی چارپائی کے
قریب کھینچ لی۔ اور اپنے پاؤں پائے پر رکھ کر بولے ”جان پدر اس زمانے میں توشہروں
میں بھی سکول نہیں ہوتے تھے، میں گاؤں کی بات کررہا ہوں۔ آج سے چوہتر برس پہلے
کوئی تمہارے ایم بی ہائی سکول کا نام بھی جانتا تھا؟ وہ تو میرے آقا کو پڑھانے کا
شوق تھا۔ ارد گرد کے لوگ اپنے لڑکے چار حرف پڑھنے کو ان کے پاس بھیج دیتے.... ان کا
سارا خاندان زیور تعلیم سے آراستہ اور دینی اور دنیوی نعمتوں سے مالا مال تھا۔ والد
ان کے ضلع بھر کے ایک ہی حکیم اور چوٹی کے مبلغ تھے۔ جد امجد مہاراجہ کشمیر کے میر
منشی۔ گھرمیں علم کے دریا بہتے تھے، فارسی، عربی،جبر و مقابلہ۔ اقلیدس، حکمت اور
علم ہیئت ان کے گھر کی لونڈیاں تھیں۔ حضور کے والد کو دیکھنا مجھے نصیب نہیں ہوا۔
لیکن آپ کی زبانی ان کے تبحر علمی کی سب داستانیں سنیں، شیفتہ اور حکیم مومن خاں
مومن سے ان کے بڑے مراسم تھے اورخود مولانا کی تعلیم دلی میں مفتی آزردہ مرحوم کی
نگرانی میں ہوئی تھی....“
مجھے داؤجی کے موضوع سے بھٹک جانے کا ڈر تھا اس لئے میں نے جلدی سے پوچھا۔ ”پھر
آپ نے حضرت مولانا کے پاس پڑھنا شروع کردیا۔“ ”ہاں“ داؤ جی اپنے آپ سے باتیں کرنے
لگے، ”ان کی باتیں ہی ایسی تھیں۔ ان کی نگاہیں ہی ایسی تھیں جس کی طرف توجہ فرماتے
تھے، بندے سے مولاکردیتے تھے۔ مٹی کے ذرے کو اکسیر کی خاصیت دے دیتے تھے.... میں تو
ا پنی لاٹھی زمین پر ڈال کر ان کے پاس بیٹھ گیا ۔ فرمایا، اپنے بھائیوں کے بورئیے
پر بیٹھو۔ میں نے کہا جی اٹھارہ برس دھرتی پر بیٹھے گزر گئے اب کیا فرق پڑتا ہے۔
پھر مسکرا دئیے اپنے چوبی صندوقچے سے حروف ابجد کا ایک مقوا نکالا اور بولے الف۔ بے
۔ بے ۔ تے.... سبحان اللہ کیا آواز تھی۔ کس شفقت سے بو لے تھے، کس لہجہ میں فرما
رہے تھے الف، بے ، پے، ت “ اور جی داؤ جی ان حرفوں کا ورد کرتے ہوئے اپنے ماضی
میں کھو گئے۔
تھوڑی دیر بعد انہوںنے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر کہا ۔ ”ادھر رہٹ تھا اور اس کے ساتھ
مچھلیوں کا حوض۔“ پھر انہوںنے اپنا بایاں ہاتھ ہوا میں لہرا کر کہا ” اور اس طرف
مزارعین کے کوٹھے، دونوں کے درمیان حضور کا باغیچہ تھا اور سامنے ان کی عظیم الشان
حویلی۔ اسی باغیچے میں ان کا مکتب تھا۔ در فیض کا کھلا تھا جس کا جی چاہے آئے نہ
مذہب کی قید نہ ملک کی پابندی....“
میں نے کافی دیر سوچنے کے بعد با ادب با ملاحظہ قسم کا فقرہ تیار کر کے پوچھا ”حضرت
مولانا کا اسم گرامی شریف کیا تھا؟“ تو پہلے انہوں نے میرا فقرہ ٹھیک کیا اور پھر
بولے۔ ”حضرت اسماعیل چشتی فرماتے تھے کہ ان کے والد ہمیشہ انہیں جان جاناں کہہ کر
پکارتے تھے ۔ کبھی جان جاناں کی رعایت سے مظہر جان جاناں بھی کہہ دیتے تھے۔
|