گڈریا
(اشفاق احمد)
میں ایسی دلچسپ کہانی سننے کا ابھی اور خواہش مند تھا کہ داؤ جی اچانک رک گئے اور
بولے۔ سب سڈی ایری سسٹم کیا تھا؟ ان انگریزوں کا برا ہو یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی
صورت میں آئیں یا ملکہ وکٹوریہ کا فرمان لے ، سارے معاملے میں کھنڈت ڈال دیتے ہیں۔
سوا کے پہاڑے کی طرح میں نے سب سڈی ایری سسٹم کا ڈھانچہ ان کی خدمت میں کردیا۔ پھر
انہوں نے میز سے گرائمر کی اٹھائی اور بولے ”باہر جا کر دیکھ کے آ کہ تیری بے بے کا
غصہ کم ہوا یا نہیں۔“ میں دوات میں پانی ڈالنے کے بہانے باہر گیا تو بے بے کومشین
چلاتے اور بی بی کو چکوا صاف کرتے پایا۔“
داؤ جی کی زندگی میں بے بے والا پہلو بڑا ہی کمزور تھا۔ جب وہ دیکھتے کہ گھر میں
مطلع صاف ہے اور بے بے کے چہرے پر کوئی شکن نہیں ہے ، تو وہ پکار کر کہتے ”سب ایک
ایک شعر سناؤ“ پہلے مجھی سے تقاضا ہوتا اورمیں چھوٹتے ہی کہتا:
لازم تھا کہ دیکھو میرا رستہ کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور
اس پر وہ تالی بجاتے اور کہتے ”اولین شعر نہ سنوں گا ، اردو کا کم سنوں گا اور
مسلسل نظم کا ہر گز نہ سنوں گا۔“
بی بی بھی میر ی طرح اکثر اس شعر سے شروع کرتی۔
شنیدم کہ شاپوردم در کشید
چوخسرو براتش قلم در کشید
اس پر داؤ جی ایک مرتبہ پھر آرڈر آرڈر پکارتے
بی بی قینچی رکھ کر کہتی:
شورے شد و از خواب عدم چشم کشوریم
دیدیم کہ باقی ست شب فتنہ عنودیم
داؤ جی شاباش تو ضرور کہہ دیتے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے ”بیٹا یہ شعر تو کئی
مرتبہ سنا چکی ہے۔“
پھر وہ بے بے کی طرف دیکھ کر کہتے۔ ”بھئی آج تمہاری بے بے بھی ایک سنائے گی“ مگر بے
بے روکھا سا جواب دیتی ”مجھے نہیں آتے شیر،کبت“۔
اس پر داؤ جی کہتے۔ ”گھوڑیاں ہی سنا دے۔ اپنے بیٹوں کے بیاہ کی گھوڑیاں ہی گا
دے۔“ اس پر بے بے کے ہونٹ مسکرانے کو کرتے لیکن وہ مسکرانہ سکتی اورداؤ جی عین
عورتوں کی طرح گھوڑیاں گانے لگتے۔ ان کے درمیان کبھی امی چند اور کبھی میرا نام
ٹانک دیتے۔ پھر کہتے ”میں اپنے اس گولو مولو کی شادی پر سرخ پگڑی باندھوں گا۔ برات
میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ساتھ چلوں گا اور نکاح نامے میں شہادت کے دستخط کروں گا۔میں
دستور کے مطابق شرماکر نگاہیں نیچی کرلیتا تو وہ کہتے۔ ”پتہ نہیں اس ملک کے کسی شہر
میں میری چھوٹی بہو پانچویں یا چھٹی جماعت میں پڑھ رہی ہوگی، ہفتہ میں ایک دن
لڑکیوں کی خانہ داری ہوتی ہے۔ اس نے تو بہت سی چیزیں پکانی سیکھ لی ہو گی۔ پڑھنے
میں بھی ہوشیار ہوگی۔ اس بدھو کو تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ مادیاں گھوڑیاں ہوتی
ہے یا مرغی۔ وہ تو فر فر سب کچھ سناتی ہو گی۔ میں تو اس کو فارسی پڑھاؤں گا پہلے
اس کو خطاطی کی تعلیم دوں گا پھر خط شکستہ سکھاؤں گا۔ مستورات کو خط شکستہ نہیں
آتا۔ میں اپنی بہو کو سکھا دوںگا.... سن گولو! پھر میں تیرے پاس ہی رہو گا۔ میں اور
میری بہو فارسی میں باتیں کریں گے۔ وہ بات بات پر بفرمائید بفرمائید کہے گی اور تو
احمقوں کی طرح منہ دیکھا کرے گا۔ پھر وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکتے خیلے خوب خیلے
خوب کہتے۔ جان پدر چرایں قدر زحمت می کشی....خوب....یاد دارم.... اور پتہ نہیں کیا
کیا کچھ کہتے۔ بچارے داؤ
جی! چٹائی پر اپنی چھوٹی سی دنیا بساکر اس میں فارسی کے فرمان جاری کئے جاتے....۔
|