|
گڈریا
(اشفاق احمد)
ایک دن جب چھت پر دھوپ پر بیٹھے ہوئے وہ ایسی ہی دنیا بسا
چکے تھے تو ہولے سے مجھے کہنے لگے۔ ”جس طرح خدا نے تجھے ایک نیک سیرت بیوی اور مجھے
سعادت مند بہو عطاکی ہے ویسے ہی وہ اپنے فضل سے میرے امی چند کو بھی دے۔“
اس کے خیالات مجھے کچھ اچھے نہیں لگتے، یہ سوانگ یہ مسلم لیگ یہ بیلچہ پارٹیاں مجھے
پسند نہیں اور امی چند لاٹھی چلانا گتکا کھیلنا سیکھ رہا ہے میری تو وہ کب مانے گا،
ہاں خدائے بزرگ و برتر اس کوایک نیک مومن سی بیوی دلا دے تو وہ اسے راہ راست پر لے
آئے گی۔
اس مومن کے لفظ پر مجھے بہت تکلیف ہوئی اورمیں چپ سا ہوگیا۔ چپ محض اس لئے ہوا تھا
کہ اگر میں نے منہ کھولا تو یقینا ایسی بات نکلے گی جس سے داؤ جی کو بڑا دکھ
ہوگا.... میری اورامی چند کی تو خیر باتیں ہی تھیں، لیکن بارہ جنوری کو بی بی کی
برات سچ مچ آگئی۔ جیجا جی رام پرتاب کے بارے میں داؤ جی مجھے بہت کچھ بتا چکے تھے
کہ وہ بہت اچھا لڑکا ہے اور اس شادی کے بارے میں انہوںنے جو استخارہ کیا تھا اس پر
وہ پورا اترتا ہے۔ سب سے زیادہ خوشی داؤ جی کو اس بات کی تھی کہ ان کے سمدھی
فارسی کے استاد تھے اور کبیر منپھتی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ بارہ تاریخ کی شام کو
بی بی وداع ہونے لگی تو گھر بھرمیں کہرام مچ گیا، بے بے زار و قطار رو رہی ہے امی
چند آنسو بہا رہا ہے اور محلے کی عورتیں پھس پھس کر رہی ہیں۔ میں دیوار کے ساتھ لگا
کھڑا ہوں اور داؤ جی میرے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑے ہیں اور باربار کہہ رہے ہیں آج
زمین کچھ میرے پاؤ ں نہیں پکڑتی۔ میں توازن قائم نہیں رکھ سکتا۔ جیجا جی کے باپ
بولے۔ ”منشی جی اب ہمیں اجازت دیجئے“ تو بی بی پچھاڑ کر گر پڑی۔ اسے چارپائی پر
ڈالا، عورتیں ہوا کرنے لگیں اور داؤ جی میرا سہارا لے کر اس کی چارپائی کی طرف
چلے۔ انہوں نے بی بی کو کندھے سے پکڑ کر اٹھایا اور کہا ” یہ کیا ہوا بیٹا۔ اٹھو!
یہ تو تمہاری نئی اور خود مختار زندگی کی پہلی گھڑی ہے۔ اسے یوں منحوس نہ بناؤ۔
بی بی اس طرح دھاڑیں مارتے ہوئے داؤ جی سے لپٹ گئی، انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ
پھیرتے ہوئے کہا ”قرة العین میں تیرا گنہگار ہوں کہ تجھے پڑھا نہ سکا۔ تیرے سامنے
شرمندہ ہوں کہ تجھے علم کا جہیز نہ دے سکا۔ تو مجھے معاف کردے گی اور شاید برخوردار
رام پرتاب بھی۔ لیکن میں اپنے کو معاف نہ کر سکوں گا۔ میں خطا کار ہوں اور میرا خجل
سر تیرے سامنے خم ہے۔“ یہ سن کر بی بی اور بھی زور زور سے رونے لگی اور داؤ جی کی
آنکھوں سے کتنے سارے موٹے موٹے آنسوؤں کے قطرے ٹوٹ کر زمین پر گرے ۔ ان کے سمدھی
نے آگے بڑھ کر کہا۔ ”منشی جی آپ فکر نہ کریں میں بیٹی کو کریما پڑھا دوں گا“ داؤ
جی ادھر پلٹے اور ہاتھ جوڑکر کہا۔ ”کریما تو یہ پڑھ چکی ہے، گلستان بوستان بھی ختم
کر چکا ہوں، لیکن میری حسرت پوری نہیں ہوئی۔“ اس پر وہ ہنس کر بولے۔ ”ساری گلستان
تو میں نے بھی نہیں پڑھی، جہاں عربی آتی تھی، آگے گزر جاتا تھا.... ’داؤ جی اسی
طرح ہاتھ جوڑے کتنی دیر خاموش کھڑے ہے، بی بی نے گوٹہ لگی سرخ رنگ کی ریشمی چادر سے
ہاتھ نکال کر پہلے امی چند اور پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور سکھیوں کے بازؤں
میں ڈیوڑھی کی طرف چل دی۔ داؤ جی میرا سہارا لے کر چلے تو انہوں نے مجھے اپنے
ساتھ زور سے بھینچ کر کہا۔ ”یہ لو یہ بھی رو رہا ہے۔ دیکھو ہمارا سہارا بنا پھرتا
ہے ۔ اوگولو....او مردم دیدہ.... تجھے کیا ہو گیا.... جان پدر تو کیوں....“
اس پر ان کا گلا رندھ گیا اور میرے آنسو بھی تیز ہوگئے۔ برات والے تانگوں اور اکوں
پر سوار تھے۔بی بی رتھ میں جا رہی تھی اور اس کے پیچھے امی چند اور میں اور ہمارے
درمیان میں دا
ؤجی پیدل چل رہے تھے۔ اگر بی بی کی چیخ ذرا زور سے نکل جاتی تو داؤ جی آگے بڑھ کر رتھ کا پردہ اٹھا تے او ر کہتے۔ ”لا حول پڑھو بیٹا، لاحول پڑھو۔“
اور خود آنکھوں پر رکھے رکھے ان کی پگڑی کا شملہ بھیگ گیا تھا۔
رانو ہمارے محلے کا کثیف سا انسان تھا، بدی اور کینہ پروری اس کی طبیعت میں کوٹ کوٹ
کر بھر ی تھی۔ وہ باڑہ جس میں نے ذکر کیاہے، اسی کا تھا۔ اس میں بیس تیس بکریاں اور
گائیں تھیں جن کا دودھ صبح و شام رانو گلی کے بغلی میدان میں بیٹھ کر بیچا کرتا
تھا۔ تقریباً سارے محلے والے اسی سے دودھ لیتے تھے اور اس کی شرارتوں کیوجہ سے دبتے
بھی تھے۔ ہمارے گھر کے آگے سے گزرتے ہوئے وہ یونہی شوقیہ لاٹھی زمین پر بجا کر داؤ
جی کو ”پنڈتا جے رام جی کی ” کہہ کر سلام کیا کرتا۔
|