|
گڈریا
(اشفاق احمد)
امتحان
دینے کے لئے ہمیں ضلع جانا ہوتا تھا۔ چنانچہ وہ صبح آگئی جس ہماری جماعت امتحان
دینے کے لئے ضلع جارہی تھی اور لاری کے ارد گرد والدین قسم کے لوگوں کا ہجوم تھا
اور اس ہجوم میں داؤ جی کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ اور سب لڑکوں کے گھر والے انہیں
خیر و برکت کی دعاؤ ں سے نواز رہے تھے اور داؤ جی سارے سال کی پڑھائی کا خلاصہ
تیار کر کے جلدی جلدی سوال پوچھ رہے تھے اور میرے ساتھ ساتھ خود ہی جواب دیتے جاتے
تھے۔ اکبر کی اصطلاحات سے اچھل کر موسم کے تغیر و تبدل پر پہنچ جاتے وہاں تے پلٹتے
تو ”اس کے بعد ایک اور بادشاہ آیا کہ اپنی وضع سے ہندو معلوم ہوتا تھا۔ وہ نشہ میں
چور تھا ایک صاحب جمال اس کا ہاتھ پکڑ کر لے آئی تھی اور جدھری چاہتی تھی پھراتی
تھی “ کہہ کر پوچھتے تھے یہ کون تھا؟
”جہانگیر “ میں نے جواب دیا۔ اور وہ عورت ۔ ”نور جہان“ ہم دونوں ایک ساتھ بولے....
”صفت مشبہ اور اسم فاعل میں فرق؟“ میںنے دونوں کی تعریفیں بیان کیں۔ بولے مثالیں؟
میں نے مثالیں دیں۔ سب لڑکے لاری میں بیٹھ گئے اورمیں ان سے جان چھڑا کر جلدی سے
داخل ہوا تو گھوم کر کھڑکی کے پاس آگئے اور پوچھنے لگے بریک ان اور بیک ان ٹو کو
فقروں میں استعمال کرو۔ ان کا استعمال بھی ہو گیا اور موٹر سٹارٹ ہو چلی تو اس کے
ساتھ قدم اٹھا کر بولے طنبورے مادیاں گھوڑیاں ماکیاں مرغی.... مادیاں
گھوڑیاں....ماکیاں.... ایک سال بعد خدا خدا کرکے یہ آواز دور ہوئی اور میں نے آزادی
کا سانس لیا!
پہلے دن تاریخ کا پرچہ بہت اچھا ہوا۔ دوسرے دن جغرافیہ کا اس بھی بڑھ کر ، تیسرے دن
اتوار تھا اور اس کے بعد حساب کی باری تھی۔ اتوار کی صبح کو داؤ جی کا کوئی بیس
صفحہ لمبا خط ملا جس میں الجبرے کے فارمولوں اور حساب کے قاعدوں کے علاوہ اور اور
کوئی بات نہ تھی۔
حساب کا پرچہ کرنے کے بعد برآمدے میں میں نے لڑکوں سے جوابات ملائے تو سو میں سے
اسی نمبر کا پرچہ ٹھیک تھا۔ میں خوشی سے پاگل ہو گیا۔ زمین پر پاؤں نہ پڑتا تھا
اور میرے منہ سے مسرت کے نعرے نکل رہے تھے۔ جونہی میں نے برآمدے سے پاؤں باہر
رکھا ۔ داؤ جی کھیس کندھے پر ڈالے ایک لڑکے کا پرچہ دیکھ رہے تھے۔ میں چیخ مار کر
ان سے لپٹ گیا۔ اور اسی نمبر!! اسی نمبر“ کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ انہوں نے پرچہ
میرے ہاتھ سے چھین کر تلخی سے پوچھا ”کون سا سوال غلط ہو گیا؟“ میں نے جھوم کر کہا
”چاری دیواری والا “ جھلا کر بولے ”تو نے کھڑکیاں اور دروازے منفی نہ کیے ہوں گے“
میں نے ان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر پیڑ کی طرح جھلاتے ہوئے کہا ”ہاں ہاں جی....گولی
مارو کھڑکیوں کو “ داؤ جی ڈوبی ہوئی آواز میں بولے ”دتو نے مجھے برباد کردیا
طنبورے سال کے تین سو پینسٹھ دن میں پکار پکار کر کہتا رہا سطحات کا سوال آنکھیں
کھول کر حل کرنا مگر تو نے میری بات نہ مانی۔ بیس نمبر ضائع کئے....پورے بیس نمبر۔“
اور داؤ جی کا چہرہ دیکھ کر میری اسی فیصد کامیابی بیس فیصد ناکامی کے نیچے یوں
دب گئی گویا اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ راستہ بھر وہ اپنے آپ سے کہتے رہے۔ ”اگر
ممتحن اچھے دل کا ہوا تو دو ایک نمبر تو ضرور دے گا، تیرا باقی حل تو ٹھیک ہے“۔ اس
پرچے کے بعد داؤ جی امتحان کے آخری دن تک میرے ساتھ رہے۔ وہ رات کے بارہ بجے تک
مجھے اس سرائے میں بیٹھ کر پڑھاتے جہاں کلاس مقیم تھی اور اس کے بعد بقول ان کے
اپنے ایک دوست کے ہاں چلے جاتے۔صبح آٹھ بجے پھر آجاتے اور کمرہ امتحان تک میرے ساتھ
چلتے۔
امتحان ختم ہوتے ہی میں نے داؤ جی کو یوں چھوڑ دیا گویا میری ان سے جان پہچان نہ
تھی۔ سار ا دن دوستوں یاروں کے ساتھ گھومتا اور شام کوناولیں پڑھا کرتا۔ اس دوران
میں اگر کبھی فرصت ملتی تو داؤ جی کو سلام کرنے بھی چلا جاتا۔ وہ اس بات پر مصر
تھے کہ میں ہر روز کم از کم ایک گھنٹہ ان کے ساتھ گزاروں تاکہ وہ مجھے کالج کی
پڑھائی کے لئے بھی تیار کریں۔لیکن میں ان کے پھندے میں آنے والا نہ تھا۔ مجھے کالج
میں سو بار فیل ہونا گوارا تھا اور ہے لیکن داؤ جی سے پڑھنا منظور نہیں۔ پڑھنے کو
چھوڑئیے ان سے باتیں کر نا بھی مشکل تھا۔ میں نے کچھ پوچھا۔ انہوں نے کہا اس کا
فارسی میں ترجمہ کرو، میں نے کچھ جواب دیا فرمایا اس کی ترکیب نحوی کرو۔ حوالداروں
کی گائے اندر گھس آئی میں اسے لکڑی سے باہر نکال رہا ہوں اور داؤ جی پوچھ رہے ہیں
cowناؤن ہے یا ورب۔ اب ہر عقل کا اندھا پانچویں جماعت پڑھا جانتا ہے کہ گائے اسم
ہے مگر داؤ جی فرما رہے ہیں کہ اسم بھی
ہے اور فعل بھی۔۔
|