|
گڈریا
(اشفاق احمد)
cow toکا مطلب ہے ڈرانا،
دھمکی دینا۔ اور یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب میں امتحان سے فارغ ہو کر نتیجہ کا
انتظار کر رہا تھا.... پھر ایک دن وہ بھی آیا جب ہم چند دوست شکار کھیلنے کے لئے
نکلے تو میں ان سے درخواست کی کہ منصفی کے آگے سے نہ جائیں کیونکہ وہاں داؤ جی
ہوں گے اور مجھے روک کر شکار، بندوق اور کارتوسوں کے محاورے پوچھنے لگیں گے۔ بازار
میں دکھائی دیتے تومیں کسی بغلی گلی میں گھس جاتا۔ گھر پر رسماً ملنے جاتا تو بے بے
سے زیادہ اور داؤ جی سے کم باتیں کرتا۔ اکثر کہا کرتے۔ افسوس آفتاب کی طرح تو بھی
ہمیں فراموش کر رہاہے ۔ میں شرارتاً خیلے خوب خیلے خوب کہہ کر ہنسنے لگتا۔
جس دن نتیجہ نکلا اور ابا جی لڈوؤں کی چھوٹی سی ٹوکری لے کر ان کے گھر گئے۔ داؤ
جی سر جھکائے اپنے حصیر میں بیٹھے تھے۔ ابا جی کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اندر
سے کرسی اٹھا لائے اور اپنے بورئیے کے پاس ڈال کر بولے ”ڈاکٹر صاحب آپ کے سامنے
شرمندہ ہوں، لیکن اسے بھی مقسوم کی خوبی سمجھئے، میراخیال تھاکہ اس کی فرسٹ ڈویژن
آجائے گی لیکن نہ آسکی۔ بنیاد کمزور تھی....“
”ایک ہی تو نمبر کم ہے۔“ میںنے چمک کر بات کاٹی۔
اور وہ میری طرف دیکھ کر بولے ”تو نہیں جانتا اس ایک نمبر سے میرا دل دو نیم ہو گیا
ہے۔ خیر میں اسے منجانب اللہ خیال کرتا ہوں۔ پھر اباجی اور وہ باتیں کرنے لگے اور
میں بے بے کے ساتھ گپیں لڑانے میں مشغول ہو گیا۔
اول او لکالج سے میں داؤ جی کے خطوں کا باقاعدہ جواب دیتا رہا ۔ اس کے بعد بے
قاعدگی سے لکھنے لگا ، اور آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ چھٹیوں میں جب گھر
آتا تو جیسے سکول کے دیگر ماسٹروں سے ملتا ویسے ہی داؤ جی کو بھی سلام کرآتا۔ اب
وہ مجھ سے سوال وغیرہ نہ پوچھتے تھے۔ کوٹ، پتلون اور ٹائی دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔
چارپائی پر بیٹھنے نہ دیتے۔ ”اگر مجھے اٹھنے نہیں دیتا تو خود کرسی لے لے“ اور میں
کرسی کھینچ کر ان کے پاس ڈٹ جاتا۔ کالج لائبریری سے میں جو کتابیں ساتھ لایاکرتا
انہیں دیکھنے کی تمنا ضرور کرتے اور میرے وعدے کے باوجود اگلے دن خود ہمارے گھر آکر
کتابیں دیکھ جاتے۔ امی چند بوجوہ کالج چھوڑ کر بنک میں ملازم ہو گیا تھا اور دلی
چلا گیا تھا۔ بے بے کی سلائی کا کام بدستور تھا۔ داؤ جی منصفی جاتے تھے لیکن کچھ
نہ لاتے تھے۔ بی بی کے خط آتے تھے وہ اپنے گھر میں خوش تھی.... کالج کی ایک سال کی
زندگی نے مجھے داؤ جی سے بہت دور کھینچ لیا۔ وہ لڑکیاں جو دو سال پہلے ہمارے ساتھ
آپو ٹاپو کھیلا کرتی تھیں بنت عم بنت بن گئی تھیں۔ سیکنڈ ائیر کے زمانے کی ہر چھٹی
میں آپو ٹاپو میں گزارنے کی کوشش کرتا اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوتا۔گھر کی مختصر
مسافت کے سامنے ایبٹ آباد کا طویل سفر زیادہ تسکین دہ اور سہانا بن گیا۔
انہی ایام میں میں نے پہلی مرتبہ ایک خوبصورت گلابی پیڈ اور ایسے ہی لفافوں کا ایک
پیکٹ خریدا تھا اور ان پر نہ ابا جی کو خط لکھے جا سکتے تھے اور نہ ہی داؤ جی کو۔
نہ دسہرے کی چھٹیوں میں داؤ جی سے ملاقات ہو سکی تھی نہ کرسمس کی تعطیلات میں
ایسے ہی ایسٹر گزر گیا اور یوں ہی ایم گزرتے رہے.... ملک کو آزادی ملنے لگی تو کچھ
بلوے ہوئے پھر لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ ہر طرف سے فسادات کی خبریں آنے لگیں اور اماں
نے ہم سب کو گھر بلوالیا۔ ہمارے لئے یہ بہت محفوظ جگہ تھی۔ بنئے ساہو کار گھر بار
چھوڑ کر بھاگ رہے تھے لیکن دوسرے لوگ خاموش تھے۔ تھوڑے ہی دنوں بعد مہاجرین کی آمد
کا سلسلہ شروع ہو گیا اور وہی لوگ یہ خبر لائے کہ آزادی مل گئی! ایک دن ہمارے قصبے
میں بھی چند گھروں کو آگ لگی اور دو ناکوں پر سخت لڑائی ہوئی۔ تھانے والے اور ملٹری
کے سپاہیوں نے کرفیو لگا دیا اور جب کرفیو ختم ہوا تو سب ہندو سکھ قصبہ چھوڑ کر چل
دئیے، دوپہر کو اماں جی نے مجھے دا
ؤجی کی خبر لینے بھیجا تو اس جانی پہنچانی گلی
میں عجیب و غریب صورتیں نظر آئیں۔ ہمارے گھر یعنی داؤ جی کے گھر کی ڈیوڑھی میں
ایک بیل بندھا تھا اور اس کے پیچھے بوری کا پردہ لٹک رہا تھا۔ میں نے گھر آکر بتایا
کہ داؤ جی اور بے بے اپنا گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور یہ کہتے ہوئے میرا گلا
رندھ گیا۔ اس مجھے یوں لگا جیسے داؤ جی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلے گئے ہیں اور لوٹ
کر نہ آئیں گے۔ داؤ جی ایسے بے وفا تھے!....
کوئی تیسرے روز غروب آفتاب کے بعد جب میں مسجد میں نئے پنا ہ گزینوں کے نام نوٹ
کرکے۔
|