|
گڈریا
(اشفاق احمد)
اور کمبل بھجوانے کا وعدہ کر کے اس گلی سے گزرا تو کھلے میدان میں سو دو سو
آدمیوں کی بھیڑ جمع دیکھی، مہاجر لڑکے لاٹھیاں پکڑے نعرے لگا رہے تھے اور گالیاں دے
رہے تھے۔ میں نے تماشائیوں کو پھاڑ کر مرکز میں گھسنے کی کوشش کی مگر مہاجرین کی
خونخوار آنکھیں دیکھ کر سہم گیا۔ ایک لڑکا کسی بزرگ سے کہہ رہا تھا۔
”ساتھ والے گاؤں گیا ہوا تھا جب لوٹا تو اپنے گھر میں گھستا چلا گیا۔“
”کون سے گھر میں؟“ بزرگ نے پوچھا۔
”رہتکی مہاجروں کے گھر میں“ لڑکے نے کہا۔
”پھر کیا انہوںنے پکڑ لیا۔ دیکھا تو ہندو نکلا۔“
اتنے میں بھیڑ میں سے کسی نے چلا کر کہا ۔ ”اوئے رانو جلد آ اوئے جلدی آ.... تیری
سامی....پنڈت.... تیری سامی۔“
رانو بکریوں کا ریوڑ باڑے کی طرف لے جارہاتھا۔ انہیں روک کر اور ایک لاٹھی والے
لڑکے کو ان کے آگے کھڑا کرکے وہ بھیڑ میں گھس گیا۔ میرے دل کو ایک دھکا سا لگا جیسے
انہوں نے داؤ جی کو پکڑ لیا ہو۔ میں نے ملزم کو دیکھے بغیر اپنے قریبی لوگوں سے
کہا۔
”یہ بڑا اچھا آدمی ہے بڑا نیک آدمی ہے....اسے کچھ مت کہو.... یہ تو.... یہ تو....“
خون میں نہائی ہوئی چند آنکھوں نے میری طرف دیکھا اور ایک نوجوان گنڈاسی تول کر
بولا۔
”بتاؤں تجھے بھی .... آگیا بڑا حمایتی بن کر.... تیرے ساتھ کچھ ہوا نہیں نا“ اور
لوگوں نے گالیاں بک کر کہا ۔ ”انصار ہو گا شاید۔“
میں ڈر کر دوسری جانب بھیڑ میں گھس گیا۔ رانو کی قیادت میں اس کے دوست داؤ جی کو
گھیرے کھڑے تھے اور رانو داؤ جی کی ٹھوڑی پکڑ کر ہلارہا تھا اور پوچھ رہا تھا۔ اب
بول بیٹا، اب بول“ اور دا
ؤجی خاموش کھڑے تھے، ایک لڑکے نے پگڑی اتار کر کہا ۔
”پہلے بودی کاٹو بودی“ اور ررانو نے مسواکیں کاٹنے والی درانتی سے داؤ جی کی بودی
کاٹ دی۔ وہی لڑکا پھر بولا ”بلا دیں جے؟“ اور رانو ں نے کہا۔”جانے دو بڈھا ہے، میرے
ساتھ بکریاں چرایا کرے گا۔“ پھر اس نے داؤ جی کی ٹھوڑی اوپر اٹھاتے ہوئے کہا
”کلمہ پڑھ پنڈتا“ اور دا
ؤ جی آہستہ سے بولے:
”کون؟“
رانوں نے ان کے ننگے سر پر ایسا تھپڑمارا کہ وہ گرتے گرتے بچے اور بولا ”سالے کلمے
بھی کوئی پانچ سات ہیں!“
جب وہ کلمہ پڑھ چکے تو رانو نے اپنی لاٹھی ان کے ہاتھ میں تھما کر کہا ۔”چل بکریاں
تیرا انتظار کرتی ہیں۔“
اور ننگے سر داؤ جی بکریوں کے پیچھے پیچھے یوں چلے جیسے لمبے لمبے بالوں والا
فریدا چل رہا ہو!۔
|