|
گنڈاسا
(احمد ندیم قاسمی)
لیکن راجو ایک دم سنجیدہ ہو گئی اور اپنے راستے پر ہولی۔ مولا بھی واپس جانے لگا
کچھ دور ہی گیا تھا کہ بڑھیا نے اسے پکارا۔ ”یہ تمہاری لٹھ تو یہیں رکھی رہ گئی
مولا بخش!“
مولا پلٹا اور لٹھ لیتے ہوئے بڑھیا سے پوچھا۔ ”ماسی! یہ لڑکی راجو کیا یہی کی رہنے
والی ہے؟ میں نے تو اسے کبھی نہیں دیکھا۔“
”یہیں کی ہے بھی بیٹا اور نہیں بھی۔“ بڑھیا بولی۔ ”اس کے باپ نے لام میں دونوں
بیٹوں کے مرنے کے بعد جب دیکھا کہ وہ روز ہل اٹھا کر اتنی دور کھیتوں میں نہیں جا
سکتا تو گاتں والے گھر کی چھت اکھیڑی اور یہاں سے یوں سمجھو کہ کوئی دو ڈھائی کوس
دور ایک ڈھوک بنالی۔ وہیں راجو اپنے باپ کے ساتھ رہتی ہے، تیسرے چوتھے دن گاؤں
میں سودا سلف خریدنے آجاتی ہے اور بس۔“
مولا جواب میں صرف ”ہوں کہہ کر واپس چلا گیا، لیکن گاؤں بھر میں یہ خبر آندھی کی
طرح پھیل گئی کہ آج مولا اپنی لٹھ ایک جگہ رکھ کر بھول گیا۔ باتوں باتوں میں راجو
کا ایک دوبار نام آیا مگر دب گیا۔ رنگے کے گھرانے اور مولا کے درمیان صرف گنڈاسے کا
رشتہ تھا نا، اور راجو رنگے ہی کے بیٹے کی منگیتر تھی اور اپنی جان کسے پیاری نہیں
ہوتی۔“
اس واقعہ کے بعد مولا گلیوں سے غائب ہو گیا۔ سارا دن گھر میں بیٹھا لاٹھی سے دالان
کی مٹی کریدتا رہتا اور کبھی باہر جاتا بھی تو کھیتوں چراگاہوں میں پھرپھراکر واپس
آجاتا۔ ماں اس کے روئیے پر چونکی مگر صرف چونکنے پر اکتفا کی۔ وہ جانتی تھی کہ مولا
کے سر پر بہت سے خون سوار ہیں، وہ بھی جو بہا دئیے گئے اور وہ بھی جو بہائے نے جا
سکے۔
یہ رمضان کامہینہ تھا ۔ نقارے پٹ پٹا کر خاموش ہوگئے تھے ۔ گھروں میں سحری کی
تیاریاں ہو رہی تھیں۔ دہی بلونے اور توے پر روٹیوں کے پڑنے کی آواز مندروں کی
گھنٹیوں کی طرح پر اسرار معلوم ہو رہی تھیں ۔ مولا کی ماں بھی چولہا جلائے بیٹھی
تھی اورمولان مکان کی چھت پر ایک چارپائی پر لیٹاآسمان کو گھورے جا رہا تھا۔ یکا یک
کسی گلی میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ مولا نے فوراً لٹھ پر گنڈاسا چڑھایا اور چھت پر سے
اتر کر گلی میں بھاگا۔ ہر طرف گھروں میں لالٹینیں نکلی آرہی تھیں اور شور بڑھ رہا
تھا۔ وہاں پہنچ کر مولا کو معلوم ہوا کہ تین مسافر جو نیزوں، برچھیوں سے لیس تھے،
بہت سے بیلوں اور گائے بھینسوں کو گلی میں سے ہنکائے لئے جا رہے تھے کہ چوکیدار نے
انہیں ٹوکا اور جواب میں انہوں نے چوکیدار کو گالی دے کر کہا کہ یہ مال چوہدری مظفر
الٰہی کا ہے، یہ گلی تو خیر ایک ذلیل سے گاؤں کی گلی ہے، چوہدری کا مال تولاہور
کی ٹھنڈک سڑک پر سے بھی گزرے تو کوئی اف نہ کرے۔
مولا کو کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے چوہدری مظفر خود، بہ نفس نفیس گاؤں کی اس گلی
میں کھڑا اس سے گنڈاسا چھیننا چاہتاہے، کڑک کر بولا۔ ” چوری کا یہ مال میرے گاؤں
سے نہیں گزرے گا، چاہے یہ چوہدری مظفر کا ہو چاہے لاٹ صاحب کا۔ یہ مال چھوڑ کر چپکے
سے اپنی راہ لو اور اپنی جان کے دشمن نہ بنو!“ اس نے لٹھ کر جھکا کر گنڈاسے کو
لالٹینوں کی روشنی میں چمکایا۔ ”جاؤ۔“
مولا گھرے ہوئے مویشیوں کو لٹھ سے ایک طرف ہنکانے لگا۔ ”جا کر کہہ دو اپنے چوہدری
سے کہ مولا گنڈاسے نے تمہیں سلام بھیجا ہے اور اب جاؤ اپنا کام کرو۔“
مسافروں نے مولا کے ساتھ سارے ہجوم کے بدلے ہوئے تیور دیکھے تو چپ چاپ کھسک گئے۔
مولا سارے مال کو اپنے گھر لے آیا اور سحری کھاتے ہوئے ماں سے کہا کہ ”یہ سب بے
زبان ہمارے مہمان ہیں، ان کے مالک پرسوں تک آنکلیں گے کہیں سے، اور گاؤں کی عزت
میری عزت ہے ماں۔“
مالک دوسرے ہی دن دوپہر کو پہنچ گئے۔۔
|