|
گنڈاسا
(احمد ندیم قاسمی)
پھر وہ
راجو کوگھور گھور کر دیکھنے لگی اور کچھ دیر کے بعد بولی۔
”تو غلام علی کی بیٹی تو نہیں؟“
”ہاں“
”تو پھر جا“.... ماں نے ترازو اٹھا کر ایک طرف پٹخ دی....
”تجھے حوصلہ کیسے ہوا میرے یہاں قدم دھرنے کا۔ رشتہ قتلوں کا اور سودے گھی کے ۔
جا!“
پھر وہ مولا کی طرف مڑی۔ ”جن پرگنڈاسے چلانے ہیں ان سے گھی کا لین دین نہیں ہوتا
میری جان۔ یہ گلے کی منگیتر ہے، گلے کی۔ رنگے کے بیٹے کی!“
راجو جس کا چہرہ کانوں تک سرخ ہو گیا تھا جلدی سے برتن پر کپڑا باندھ کر اٹھی اور
بولی۔ ”تمہارے سینوں میں دل ہیں یا خشخاش کے دانے۔“
مولا کے منہ پر جیسے ایک طرف اس کی ماں نے اور دوسری طرف راجو نے تھپڑ مار دیاتھا۔
وہ بھنا کر رہ گیا اور جب راجو چلی گئی تو چلتی دوپہر میںاوپر چھت پر چڑھ گیا۔ اور
چارپائی پر لیٹ گیا اور دیر تک یونہی دھوپ میں لیٹارہا۔ اور جب اس ماں اسے اٹھانے
آئی تو رو رہا تھا۔
”تو تم رو رہے ہو مولے؟“ اس نے حیران ہو کرپوچھا۔
اور مولا بولا۔”اب روؤں بھی نہیں؟“
ماں چکرا کر اس کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ بیٹے کے سوال میں اپنے سوال کا جواب ڈھونڈ رہی
تھی۔
اب مولا گھر میں بھی نہیں بیٹھتا تھا۔ سارا سارا دن لاری کے اڈے پر نورے نائی کے
ہاں پڑا رہتا۔ نورے نے وہاں چائے کی دکان کھول رکھی تھی۔ شام سے پہلے جب لاری آتی
تو گاؤں بھر کے نوجوانوں اور بچوں کا وہاں ہجوم لگ جاتا.... سب نورے کی چائے پیتے
اور ڈرائیور سے شہروں کی خبریں پوچھتے، اور مولا ان سب سے الگ ایک کھٹولے پر لیٹا
آسمان کو گھورتا رہتا۔ لوگ اب مولا کے عادی ہو چکے تھے۔ وہ اس کے پاس سے حقہ تک
اٹھا لاتے تھے مگر کسی کو اس کی لٹھ چھونے یا الانگنے کی جرا ¿ت نہ ہوتی جو وہاں
کھٹولے کے ساتھ لگی لاری کے انجن تک تنی رہتی تھی۔
پھر ایک روز جب شام سے پہلے لاری آکر رکی اور اس میں سے مسافر اترنے لگے تو ایکا
ایکی جیسے سارے اڈے پر الو بول گیا۔ لاری میں سے رنگے کا بیٹا گلا اترا، اس کے
پیچھے چار بڑے قد آور گبرو اترے اور پھر پانچویں ایک طرف جا کر باتیں کرنے لگے۔
مولا اس سناٹے سے چونکا اور چارپائی پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے ہجوم کودیکھا کہ
ہجوم سمٹ کر نورے کی دیوار کے ساتھ لگ گیا ہے اور سامنے گلا کھڑا اس کی طرف اشارہ
کر رہاہے۔ اس نے تیزی سے چارپائی پر سے پاؤں لٹکائے اور ٹینک میں سے گنڈاسا نکال
کر لٹھ پر چڑھالیا....”حقہ لانا نورے۔“ وہ پکارا، اور زور رو نوراکانپتے ہوئے
ہاتھوں اس کے پاس حقہ رکھ کر غڑاپ سے دکان کے اندر چلا گیا۔
اب پانچویں نووارد لاری سے کچھ فاصلے میں کھڑے گھور گھور کر مولا کو دیکھنے لگے۔ جس
نے بے پروائی سے ایک لمبا کش لگا کر دھواں آسمان کی طرف اڑا دیا۔
”مولے“ گلے نے اسے للکارا۔
”کہو“ مولے نے ایک اور کش لگا کر اب کے دھواں گلے کی طرف اڑا دیا۔
”ہم تم سے کچھ کہنے آئے ہیں۔“....
”کہو کہو....“
”گنڈاسا ایک طرف رکھ دو، ہم بھی خالی ہواتھ ہیں۔“۔
|