|
گنڈاسا
(احمد ندیم قاسمی)
”لو“ مولا نے لٹھ کی ایک طرف گرا دیا۔ پانچوں آہستہ آہستہ ا س کی طرف بڑھنے لگے۔
ہجوم جیسے دیوار سے چمٹ رہ گیا ۔ بچے بہت پیچھے ہٹ کر کمہاروں کے آوے پر چڑھ گئے
تھے۔
”کیا بات ہے؟“ مولا نے گلے سے پوچھا۔
گلا جواب اس کے پاس پہنچ گیا تھا بولا۔
”تم نے چوہدری مظفر کا مال روکا تھا!“
”ہاں“ مولا نے بڑے اطمینان سے کہا۔”پھر؟“
گلے نے کنکھیوں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھا اور گلا صاف کرتے ہوئے بولا۔ چوہدری نے
تمہیں اس کا انعام بھیجا ہے اور کیا ہے کہ ہم یہ انعام ان سارے گاؤں والوں کے
سامنے تمہارے حوالے کردیں۔“
”انعام!“ مولا چونکا۔ ”آخر بات کیاہے؟“
گلے نے تڑاخ سے ایک چانٹا مولا کے منہ پر مارا اور پھر بجلی کی سی تیزی سے پیچھے
ہٹتے ہوئے بولا ۔ ”یہ بات ہے۔“
تڑپ کر مولا نے لٹھ اٹھائی، ڈوبتے ہوسے سورج کی روشنی میں گنڈاسا شعلے کی طرح چمکا،
پانچویں نووارد غیر انسانی تیزی سے واپس بھاگے، مگر گلا لاری کے پرلی طرف کنکروں پر
پھسل کر گر گیا لپکتا ہوا مولا رک گیا، اٹھا ہوا گنڈاسا جھکا اور جس زاوئیے پر جھکا
تھا وہیں جھکا رہ گیا.... دم بخود ہجوم دیوارسے اچٹ اچٹ کر آگے آرہا تھا۔ بچے آوے
کی راکھ اڑاتے ہوئے اتر آئے، نورا دکان میں سے باہر آگیا۔
گلے نے اپنی انگلیوں اور پنجوں کو زمین میں یو گاڑ رکھا تھا۔ جیسے دھرتی کے سینہ
میں اتر جانا چاہتا ہے .... اور پھرمولا ، جو معلوم ہوتا تھا کچھ دیر کے لئے سکتے
میں آگیا ہے، ایک قدم آگے بڑھا، لٹھ کو دور دوکان کے سامنے اپنے کھٹولے کی طرف
پھینک دیا اور گلے کو بازو سے پکڑ کر بڑی نرمی سے اٹھاتے ہوئے بولا.... چوہدری کو
میراسلام دینا اور کہنا کہ انعام مل گیا ہے، رسید میں خود پہنچانے آؤ ںگا۔“
اس نے ہولے ہولے گلے کے کپڑے جھاڑے، اس کے ٹوٹے ہوئے طرے کو سیدھا کیا اور بولا۔
”رسید تم ہی کو دے دیتا پر تمہیں تو دولہا بننا ہے ابھی.... اس لئے جاؤ، اپنا کام
کرو....“
گلا سر جھکائے ہولے ہولے چلتا گلی میں مڑ گیا....مولا آہستہ آہستہ کھاٹ کی طرف
بڑھا، جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہا تھا ویسے ویسے لوگوں کے قدم پیچھے ہٹ رہے تھے اور
جب اس نے کھاٹ پر بیٹھنا چاہا تو کمہاروں کے آوے کی طرف سے اس کی ماں چیختی چلاتی
بھاگتی ہوئی آئی، اورمولا کے پاس آکر نہایت وحشت سے بولنے لگی۔” تجھے گلے نے تھپڑ
مارا اور تو پی گیا چپکے سے! ارے تو تو میرا حلالی بیٹا تھا۔ تیرا گنڈاسا کیوں نہ
اٹھا؟تونے....“ وہ اپنا سر پیٹتے ہوئے اچانک رک گئی اور بہت نرم آواز میں جیسے بہت
دور سے بولی۔ ”تو تو رورہا ہے مولے؟“
مولے گنڈاسے والے نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے اپنا ایک بازو آنکھوں پر رگڑا اور
لرزتے ہوئے ہونٹوں سے بالکل معصوم بچوں کی طرح ہولے بولا”تو کیا اب روؤں بھی
نہیں!“۔
|