|
حرام جادی
(محمد حسن عسکری)
ایملی نے اپنی دادی سے سنا تھا کہ ان کے بچپن میں ایک مرتبہ پاؤ پاؤ بھر کے
مینڈک برسے تھے ۔ وہ کبھی کبھی سو چا کرتی تھی ........اور اس وقت اسے بے ساختہ
ہنسی بھی آجاتی تھی ........کہ یہ بچے وہی برسنے والے مینڈک ہیں ۔ پاؤپاؤ بھر
کے زرد زرد مینڈک ۔
اور اسے انہی زرد مینڈکوں کیبارش کے ہر قطرہ کو برستے ہوئے دیکھنے کے لئے قصبے کی
ٹوٹی پھوٹی روڑوں کی سڑکوں ، تنگ و تاریک ، سیلی ہوئی گلیوں ، گردوغبار ، کوڑے کرکٹ
کے ڈھیروں ، بھونکتے ہوئے لال پیلے کتوں اور کسانوں کی گاڑیوں اور گھا س دالیوں سے
ٹھنسے ہوئے بازاروں میں سارا سارا دن گھومناپڑتا تھا ۔ پتلی پتلی سڑکوں پر دونوں
طرف ریت کا حاشیہ ضرور بنا ہوتا تھا اور پھر نالیاں تو ٹھیک سڑکوں کے بیچوں بیچ
بستی تھیں جن کی سیاہی کسی گنوار دن کے بہے ہوئے کا جل کی طرح سڑک کا کافی حصہ غصب
کئے رہتی تھی ۔ صفائی کے بھنگی نالیوں کی گندگی سمیٹ سمیٹ کرسڑک پر پھیلادیتے تھے
جن سے اپنی ساڑھی کومحفوظ رکھنے کے لئے ایملی کو ہلکے ہلکے فیروزی سینڈل کے بجائے
اونچی ایڑی والا جوتا پہننا پڑتا تھا ۔ گو اس صورت میں سڑک کے ابھر ے ہوئے لاتعداد
کنکر اس کے پیروں کو ڈگمگا دیتے تھے ۔ راستہ میں گلی ڈنڈا اور کبڈی کھیلنے والے
لونڈوں کا لاابالیپن اس کے کپڑوں پر ہر دفعہ اپنا نشان چھوڑ جاتا تھا ۔ مگر خیر شکر
تھا کہ وہم ہمیشہ اپنی آںکھیں اوردانت سلامت لے آتی تھی اور یہاں کی گرمی !اسے
معلوم ہوتا تھاکہ وہ یقیناً پسینوں میں گھل گھل کر ختم ہوجائے گی ۔ ان تنگ سڑکوں پر
بھی سورج اس تیزی سے چمکتا تھا کہ اس کے بدن پر چنگاریاں ناچنے لگتیں اور اس کی
نیلے پھولوں والی چھتری محض ایک بوجھ بن جاتی ۔ جب وہ اپنی اونچی ایڑیوں پر
لڑکھڑاتی ، سنبھلتی ، دھوپ میں جلتی بھنتی سڑکوں پر سے گزرتی تو اسے دور آلھا گانے
کی آواز ، ڈھول کی کھٹ کھٹ ور درخت کے نیچے تاش کی پارٹیوں کے بلنداورکرخت قہقہے
دوپہر کی نیند حرام کردینے والی بوجھل مکھیوں کی بھنبھاہٹ کی طرح بیزار کن اور
پراستہزا معلوم ہوتے اوروہ چار مہینے پہلے چھوڑے ہوئے شہر کا خیال کرنے لگتی ۔ مگر
شہر اس وقت خوابوں کی وہ سرزمین بن جاتا ہے جسے صبح اٹھ کر ہزار کوششوں کے باوجود
کچھ یاد نہیں کیا جاسکتا اور جس کی لطافت کایقین دن بھردل کو بے چین کئے رکھتا ہے ۔
اسے کچھ ر وشنی سی معلوم ہوتی ............ایک چمک ، ایک کشادگی ، ایک پہنائی
........کچھ ہریالی اس کے سامنے تیرتی ........اوروہ پھر اسی تپتی ہوئی کنکروں ،
نالیوں اور ریت والی سڑک پر لڑکھڑاتی ، سنبھلئتی چل رہی ہوتی ۔ بجلی کے پنکھے والے
کمرے کا تصور اس تپش اور موزش کو کم کرنے میں اس کی مدد نہ کرتا تھا ۔ لیکن ، ہاں
!جب کبھی وہ خوش قسمتی سے رات کو فارغ ہوتی اور اسے اپنے بستر پر کچھ دیر جاگنے کا
موقع مل جاتا تو اس وقت شہر کی زندگی کی تصویری ، سینما کے پردے کی طرح پوری طرح
روشنی اورصفائی کے ساتھ اس کی نظروں کے سامنے گزرنے لگتیں اوروہ جس تصویر کوجتنا
دیر چاہتی ٹھہرالیتی ۔ لیکن جب وہ ان تصویروں سے لطف اٹھانے کے درمیان ان مناظر کو
یاد کرتی جن سے اسے ہر وقت دو چار ہوناپڑتا تھا تو اس کی خستگی اور بیزاری آہستہ
آہستہعود کرآتی ۔گھرکی دیواریں مع رات کی تاریکوں کے اس پر جھک پڑتیں ۔ دل بھنچنے
لگتا ،سانس گرم اور دشوار ہوجاتا اور اس کا سر کمننی کھا کھاکر نیند کی بے ہوشی میں
فرق ہوجاتا اور وہ خواب میں دیکھتی کہ وہ پھر اسی شہر کے ہسپتال میں پہنچ گئی ہے ،
مگر ان درودیوار سے بجائے رفاقت کے کچھ بےیگانگی سی ٹپکتی ہے اور خود اس کے منجمد
اور ناقابل حرکت ہوگئے ہیں اور کوئی نامعلوم خوف اس کے دل پر مسلط ۔ وہ صبح تک یہی
خواب تین چار مرتبہ دیکھتی ، اور دراصل اس کے لئے ان زندگیوں کا انتقال ہونا بھی
چاہیے تھا ۔ ایسے ہی اثرات پیدا کرنے والا ، ماناکہ شہر میں بھی ایسی ہی ملی ہوئی
گلیاں ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، گردوغبار ، شریر لڑکے موجود تھے اور وہ ان کے وجود سے
بے خبر نہ تھی لیکن وہتو ہوا کی چڑیون کی طرح ان سب سے بے پرواہ اور مطمئن تانگے کے
گدوں پر جھولتی ہوئی ان اطراف سے کبھی دسویں پندرھویں نکل جایا کرتی تھی۔ اس کی
دنیا تو ان علاقوں سے دور ضلع کے صدر ہسپتال میں تھی ۔ کتنی کھلی ہوئی جگہ تھی وہ ،
اور وہاں کا لطف تو ساری عمر نہ بھول سکے گی ۔ ہسپتال کے سامنے تار کول کی چوڑی سڑک
تھی جس پر دن میں دو مرتبہ جھاڑو دی جاتی تھی اور جو ہمیشہ شیشے کی طرح چمکا کرتی
تھی جب وہ اپنی سہیلی ڈینا کے ساتھ اس پر ٹہلنے کے لئے نکلتی تھی تو دور دور تک
پھیلے ہوئے کھیتوں اور میدانوں پر سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چہرے اور آنکھوں
پر لگ لگ کا دماغ کو ہلکا کردیتے تھے ۔ اس کی ساڑھی پھڑپھڑانے لگتی ، ماتھے پر
بالوں کی ایک لڑی تیرتی اور اس کی رفتار سبک اور تیزہوجاتی ۔
|