|
حرام جادی
(محمد حسن عسکری)
وہ اپنی آہوں کے درمیان بھی رک کر دائی کو مشورہ دینے لگتی تھیں اور
ایملی کو دانتوں سے ہونٹ چبا چبا کر خاموش رہ جانا پڑتا تھا اور دائی تو بھلا اس کی
کہاں سننے والی تھی ۔ اسے اپنی برتری اور مڈوائف کی نااہلیت کا یقین تو خیر تھا ہی
مگر اس کی موجودگی سے اپنی آمدنی پر اثر پڑتا دیکھ کر اس نے ایملی کی ہر بات کی
تردید کرنا اپنا فرض بنالیا تھا ۔ گوایملی نے اس کے طنزیہ جملوں کو پینے کی عادت
ڈالی لی تھی ۔ لیکن ا کا دل کوئی پتھر کا تھوڑے ہی تھا ۔ دائی کی طرز عمل کو دیکھ
دیکھ کر دوسری عورتیں بھی دلیر ہوگئی تھیں ۔اس کی طرف توجہ کئے بغیر ہی وہ پلنگ کو
گھیر لیتی تھیں ۔ اور وہ سب سے پیچھے چھوڑ دی جاتی تھی ۔ اب اس کے سوا کیا رہ جاتا
تھا کہ وہ جھنجھلا جھنجھلا کر پیر پٹخے اورانہیں پکار پکار کر اپنی طرف متوجہ کرنے
کی کوشش کرے ۔
ان سب آزمائشوں سے گزرنے کے بعداسے ہر بار اندراج کے لئے ٹاؤن ایریا کے دفتر جانا
پڑتا تھا ۔ اسے دیکھ کر بخشی جی کی آنکھیںچمکنے لگتیں اور ان کے پان میں سنے ہوئے
کالے دانت نیم تمسخرانہ انداز میں ان کو چھوٹی داڑھی اوربڑی بڑی مونچھوں سے باہر
نکل آتے اور وہ اس کی طرف کرسی کھسکاتے ہوئے کہتے”کہومیم صاحب !لڑکا کہ
لڑکی؟“مونچھوں کے ان گھنے کالے بالوں کی قربت اسے ہراساں کردیتی اوراسے ایسا معلوم
ہونے لگتا جیسے ان بالوں میں یکایک بجلی کی لہر دوڑ جائے گی اور وہ سیدھے ہوکر اس
کے چہرہ سے آملیں گے ۔ وہ نفرت اور خوف سے پیچھے سمٹ جاتی اور بخشی جی سے نظریں
بچاتی ہوئی جلد سے جلد اپنا کام ختم کرنے کی کوشش کرتی ۔
یہ سارے مرحلے طے کرتی ہوئی وہ عمواً آٹھ نو بجے رات کو تھکی ہاری اپنے گھر پہنچتی
تھی ۔ جب پیر کہیں سے کہیں پڑرہے ہوں ، سربھٹایا ہوا ہو، جب جسم کا کوئی بھی عضو
ایک دوسرے کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہو ، تو بھلا بھوک کیا خاک لگیںسکتی ہے ۔ وہ
جوتاکھول کر پیر سے کونے میں اچھال دیتی اور کپڑے اس طرح جھنجھلا جھنجھلا کراتارتی
کا دوسرے دن نسین کو انہیں دھوبی کے یہاں استری کرانے لے جانا پڑتا ۔ الٹا سیدھا
کھانا حلق کے نیچے اتار کر وہ بہتر پرگرپڑتی ۔ تکئے پر سر رکھتے ہی دیواریں ، پیڑ ،
ساری دنیا اس کے گرد تیزی سے گھومنے لگتے ۔ بھیجا دھرا دھڑ دھرادھڑا کرکھوپڑی میں
سے نکل بھاگنے کی کوشش کرتا ۔ سر تکئے مین گھسا جاتا مگر تکیہ اسے اوپر اچھالتا
معلوم ہوتا ۔ بازو شل ہوجاتے ۔ ہتھیلوں میں سیسہ سا بھر جانا اور ہاتھ اوپر نہ اٹھ
سکتے ۔ اسی طرح ٹانگیں بھی حرکت سے انکار کردیتیں اور کمر تو بالکل پتھر بن جاتی ۔
وہ اپنے پرانے ہسپتال کو یاد کرنا چاہتی ، مگر وہ کسی چیز کو بھی پوری طرح یاد نہ
کرسکتی ........کھڑکی کا کواڑ ، مریضوں کی آہنی چارپائی کا پایہ ، موٹر کے پہلے ،
نیم کے پیڑ کی چوٹی ، پان میں ستے ہوئے کالے دانت اور گھنی سخت مونچھیں ، یہ سب
باری باری بجلی کے گوندے کی طرح سامنے آتے او رآنکھ چھبکتے میں غائب ہوجاتے وہ
کھڑکی کے کواٹر میں ایک کمرہ جوڑانا چاہتی ۔ مگر اس میں زیادہ سے زیادہ ایک چٹخنی
کا اضافہ کرسکتی بلکہ بعض اوقات آہنی چارپائی کا ایک پایہ تو ایک کھونٹے کی طرح اس
کے دماغ میں گڑجاتا اور کوشش کے باوجود بھی ٹس سے مس نہ ہوتا ، نیم کی چوٹی کو کبھی
تنا حاصل نہ ہوسکتا ........پھر نیم کی ہر ی ہری چوٹی پر ایک ریت کے حاشیہ والی
نالی بہنے لگتی اور کھڑکی کے شیشے پر پان میں سنے ہوےءکالے دانت مسکراتے اور گھنے
سخت بالوں والی مونچھیں بے تابی سے بلتیں ........مختلف شکلیں ایک سے دست و گریبان
ہوجانیں اور دماغ کے ایک سرے سے دوسرے تک لڑتی جھگڑتی ، ٹکراتی ، روندتی ، دوڑتی
....سیاہ آسمان پر روشن ان گنت تاروں کے کچھے کے کچھے بھنگوں کی طرح آنکھوں میں گھس
گھس کر ناچنے لگتے اور جلتی ہوئی آنکھیں کنپٹیوں کی خواب آوربھد بھدے سے آہستہ
آہستہ بند ہوجاتیں ....سونے کے بعدتو ان شکلوں کے اور بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوجاتے
جو باری باری آتے اور اس کے دماغ پر مسلط ہوجانا چاہتے ۔ اتنے ہی میں ایک ایک دوسرا
آپہنچتا اور پہلے والے کو دھکے دے کر باہر نکال دیتا ۔ابھی یہ کشمکش ختم بھی نہ
ہوتی کہ ایک تیسراآدھمکتا ۔ان سب کی حریفانہ زور آزمائیاں اسے بار بار چونکا دیتیں
اور وہ ہلکی سی کراہ کے ساتھ آنکھیں کھول دیت .... پھر آنکھوں میں تاروں کے گچھے کے
گچھے بھرنے لگتے .... کہیں صبح کے قریب جاکر یہ شکلیں تھلتیں اور اپنی رزم گاہ سے
رخصت ہوتیں ہلکی ہلکی ہوا بھی چلنی شروع ہوجاتی اور ایملی نیند میں بالکل بے جوش
ہوجاتی مگر اس کی نیند پوری ہونے سے پہلے ” کواڑ کھولو “ کی مسلسل اور ضدی چیخیں اس
کے دماغ مین گونجتیں ........وہی چیخیں ،وہی دھڑ دھڑاہٹ ، فرض اور آرام کی وہی تلخ
کشمکش ، وہی جھلاہٹ اور پسپائی ۔ نصین بہار سے لوٹ آئی تھی ۔
|