|
حرام جادی
(محمد حسن عسکری)
اسے شیخ صفدر علی کے
ہاں بلایا گیا تھا اور پکارنے والے نے باربارکہا تھا ”جلدی ........بلایا ہے
........جلدی ........“ہر ایک یہی کہتا ہوا آتا ہے جلدی ........آخر وہ کیوں جلدی
کرے ؟ کیا وہ ان کی نوکر ہے ؟ یا وہ اسے دولت بخش دیتے ہیں ۔ ہونہہ ........جلدی !
وہ نہ پہنچے گی تو کیا سب مرجائین گے ؟ اور پھر وہ کریں گے ہی کیا اسے بلاکر
؟........کہتی ہیں چڑیلیں” اسے کیا خاک آتا ہے ........“کیا خاک آتا ہے ........کچھ
نہیں آتا ........اچھا پھر ؟ بیٹھیں اپنے گھر ، کون ان کی خوشامد کرنے جاتا ہے
........کچھ نہیں آتا ؟ جیسے جیسے آئے اس نے دیکھے ہیں ان لوگوں کے تو خواب و خیال
میں بھی نہ گزرے ہوں گے ........چمکدار ،تیز،ہاتھی دانت کے دستے والے ........اور
وہ ڈاکٹر کارٹ فیلڈ کے لیکچر ، وہ نقشے دکھا دکھا کر جسم کے حصوں کو سمجھاتی تھی
........کچھ نہیں آتا ........ہونہہ!
ایملی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی ۔ پہلے تواس کا جی چاہا کہ کہلوادے وہ جلدی نہیں
آسکتی ۔ وہ بالکل نہیں آئے گی ۔ مگر پھر اسے خیال آیا کہ یہ لوگ محض جاہل ہی تو ہیں
۔ ان کے کہنے سے اس کا بگڑتا کیا ہے اور آخر ذمہ داری تو خود اس کی ہی ہے ۔ چنانچہ
اس نے غسین سے کہا” کہہ دو کہ چلو میں آرہی ہون۔ “مطمئن ہوکر اس نے کروٹ لے لی ۔ سر
کو تکیے پر ڈھیلا چھوڑ دیا ۔ آنکھیں بند کرلیں ، ایک بازو بستر کی ٹھنڈی چادر پر
پھیلا دیا ، اور ہاتھ چہرے پر رکھ لیا ۔ اس نے چاہا کہ دماغ کو بالکل خالی کرلے اور
ساکت ہو جائے مگر اس کے دل کی کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ کانوںمیں بج رہی تھی اورتھوڑی تھوڑی
دیربعدیکایک ایک پتھر سا دماغ میں آکر لگتا تھا ۔”جلد ........“جس سے اس کے ماتھے
اور کنپٹیوں کی نہیں تن جاتی تھیں اور ٹوٹتی ہوئی معلوم ہونے لگتی تھیں ۔اسے جلدی
جانا تھا ........جلدی ....اور اسی بات کے تو وہ ٹاؤن ایریا کمیٹی سے تیس روپے
ماہوار پاتی تھی ۔ جلد جانا تھا ....لیکن آخر وہ فرض پر صحت کو تو نہیں قربان
کرسکتی تھی ۔ کل رات ہی اسے بہت دیر ہوگئی تھی ۔ وہ انسان ہی تو تھی نہ کہ مشین
........اب وہ محسوس کررہی تھی کہ اس کے سر میں درد ہورہا ہے ، کمربیٹھ جارہی ہے ،
کندھے اور ٹانگیں بے جان ہوگئے ہیں ۔ ایسی حالت میں اتنی جلدی بہت مضر ہوگا ، اور
خصوصاً اس قصبہ جیسی آب وہوا میں جہاں اسکی صحت روز بروز کرتی جارہی ہے ۔ ابھی آخر
چار مہینے میں اسے چاردن بخارآچکا تھا ........اور پھر وہ وہاں جاکر بناہی کیا لے
گی ، ان لوگوں کو ایسی کیا خاص ضرورت ہے اس کی ........تھوڑا سا اور سولینا ہی
بہترہوگا ۔
وہ سوجاتی مگر انگلیوں کے بیچ میں ہوکر صبح کی روشنی آرہی تھی اور اس کی آنکھوں کو
بند نہ ہونے دیتی تھی ۔ اس نے ہاتھ آنکھوں پر کھسکا لیا اور آنکھیں خوب بھینچ کر
بند کر لیں ۔ اب اسے جھپکیاں آنا شروع ہوگئیں ۔ مگر ہر دفعہ ” دودھ اور دودھ “ابے
او کلو ہوئے ۔” اٹھ ! اٹھ ! ابے پڑھنے نہیں جانے کا ؟ “ کی صداؤں اور نصییں کی
لکڑیاں توڑنے اوردیچکیاں اٹھانے کی آوازوں سے وہ چونک پڑتی تھی ۔ سونے کی کوشش کرتے
کرتے اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا ۔سر میں درد ہونے لگا اورماتھا جلنے لگا ۔ وہ
مایوس ہوکر سیدھی لیٹ گئی اورآنکھوں پر دونوں بازو رکھ لئے ۔ اوب اس کے اعضاءاور
بھی بوجھل اورناقابل حرکت ہوگئے اوروہ ان صداؤں ، آوازوں ، ان تحکمانہ طلبیوں
........”جلدی بلایا ہے ۔“اس صبح کے چاند نے ، اس قصبہ پردانت پسینے لگی ۔وہ چاہتی
تھی کہ کوئی ایسی چادراوڑھ لی کہ اس کوان صداؤں ، آوازوں ، ان تحکمانہ طلبیوں
۔”جلدی بلایا ہے ........“اس صبح کے چاند نے ، اس قصبے ۔ سب سے چھطاکے ۔ جس کے نیچے
ان میں سے کسی کی بھی پہنچ نہ ہو ، جہاں وہ ان سب سے ........اپنے آپ سے غافل
ہوجائے ........اپنے کو کھودے ....اسے محسوس ہوکہ دومضبوط اور مدت کے آشنا بازو اس
کے جسم کا حلقہ کئے بھینچ رہے ہیں ....سر کے درد کو گویا یکایک کسی نے پکڑ لیا
....دو آنکھیں بھی ذرا دورچمکیں ، مسکراتی ہوئی معلوم ہوئیں اور اس نے اپنے آپ کو
ان بازوؤں کی گرفٹ میں چھوڑ دیا ........جسم ہوا کی طرح ہلکا ہوگیا تھا ۔سر ہلکے
ہلکے جھکولے کھاتا موجوں پر بہا چلا جارہا تھا ۔ سکون تھا ، خاموشی تھی اور صرف دل
کے مسرت سے دھڑکنے کی آواز آرہی تھی ....دو بازو اس کے جسم کو بھینچ رہے تھے ۔ وہ
مضبوط اور مدت کے آشناءبازو ....
اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں ۔ صبح کے چاند میں چمک آگئی تھی ۔ نصیبن نے چوٹھے پر
دیگچی رکھی ۔ بکری والا محلہ سے جانے کے لئے بکریاں جمع کررہا تھا ۔ اور کنویں کی
گراری زورزور سے چل رہی تھی ۔ اس کی آنکھیں اوپر اٹھیں اور ہوا میں کسی چیز کو تلاش
کرنے لگیں۔
|