|
حرام جادی
(محمد حسن عسکری)
دو بادامی سائے اترنے لگے ۔ آنکھوں کے پردے پھڑکے اور پلکیں آہستہ
آہستہ ایک دوسرے سے مل گئیں ........گویا وہ ان سایوں کو پھنسالینا چاہتی ہیں
....سائے کچھ دورپر رک گئے ، وہ ڈگمگائے اور دھندلے ہوتے ہوتے ہوا میں تحلیل ہوگئے
........آنکھیں صبح بے رنگ آسمان کو دیکھ رہی تھیں ۔ اس کی گردن ڈھلک گئی اور بازو
دونوں طرف گر پڑے ....وہ مدت کے آشنابازو ....مگر وہ یہاں کہاں !
چند لمحے بے حس پڑے رہنے کے بعد وہ ولیمن کو یاد کرنے لگی ہر لمبے لمبے پیچھے الٹے
ہوئے بال ، چوڑا سینہ ،سرخ ڈوروں والی جلد جلد پھرتی ہوئی آنکھیں ، موٹا سا نچلا
ہونٹ ، کان کی لو تک کٹی ہوئی قلمیں ، ساولے رنگ پر منڈھی ہوئی داڑھی کا گہرا نشان
آنکھوں کے نجے ابھری ہوئی ہڈیاں اور مضبوط بازو....دن میں کتنی کتنی مرتبہ اس کے
بازو اسے بھینچتے تھے اور ان کے درمیان وہ بالکل بے بس ہوجاتی تھی اور بعض دفعہ تو
جھنجھلا پڑتی تھی مگر اس کے جواب میں اس کا پیار اوربڑھ جاتا تھا ....اور اس کے
دونوں گالوں پر وہ گرم اور نم آلودہ بوسے ....اور دن میں کتنی کتنی مرتبہ اس کے منہ
سے شراب کی تیز بدبو تو ضرور آتی تھی ۔ مگر وہ کیسے جوش سے اسے اپنے بازوؤں میں
اٹھا لیتا تھا ، اور پاگلوں کی طرح اس کے چہرے ہاتھوں ، گردن ،سینے سب پر بوسلنے دے
ڈالتا تھا اور پھر قہقہے مار مار کر ہنستا تھا ”....میر جان ....ہاہاہا ہا....اے می
لی ....ڈی یر....پیاری پیاری ....ہا ہا ہاہا ........“اور وہ اس کی کیسی نگہداشت
کرتا تھا ۔ وہ اس سے اپنے بازوؤں میں پوچھتا ۔“اس مہینے میں کیسی ساڑھی لاؤ گی
، میر جان ؟....ہیں ؟ ....اس سینے پر تو سرخ کھلے گی !کہو کیسی رہی ؟ ہا ہا
ہاہا........“اور وہ اسے دو پہر میں تو کبھی نہ نکلنے دیتا تھا اگر اسے ایسے وقت
ہسپتال سے بلایاجاتا تو وہ کہلوادیتا کہ مس ولیمن سو رہی لیں اوروہ اس کے اٹھنے سے
پہلے چائے تیار کراکے اپنے آپ اس کے قریب میز پر لارکھتا تھا اور وہ اسے کتنے پیار
سے بھیجتا تھا مگر وہ یہاں کہاں !........اگر وہ یہاں ہوتا تو وہ اسے اتنے سویرے
کہیں نہ جانے دیتا ۔ وہ یہاں ہوتا تو وہ خود کہیں نہ جاتی ۔ وہ تو ایسے کواڑ پیٹ کر
جگانے والے کا سر توڑ دیتا........لیکن وہ یہاں ہوتا ............وہ اس کے پاس ہوتا
تو وہ خود یہاں کیوں ہوتی ۔
لیکن ........کچھ دوسری شکلیںابھریں ....اچھا ہی ہے کہ وہ اس کے پاس نہیں ہے
........اس کے بال الجھے ہوئے اورپریشان تھے ، اور وہ اس طرح دانتوں سے ہونٹ چبا
رہا تھا گویا ان کا قیمہ کرکے رکھ دے گا اور اس نے اسے کیسی بے رحمی سے بید سے پیٹا
تھا ۔”لے ....اور لے گی .... بڑی بن کر آئی ہے وہاں سے وہ....” اگرمیم صاحب شور سن
کر نہ آجاتیں تو نہ معلوم وہ ابھی اور کتنا مارتا ........ایملی اپنے بازوؤں پر
نشان دھونڈنے لگی ........ایسے ظالم سے تو چھٹکارہ ہی اچھا ........کیسی خونی
آنکھیں ،اور آخر میں وہ شراب کتنی پینے لگا تھا ........مگر وہ ہوتا تو اسے اتنے
سویرے کہیں نہ جانے دیتا ........مانا کہ وہ روڑا کے ساتھ رات کو بڑی دیر ٹہلتا
رہتا تھا۔ لیکن ظاہرا تو اس کے ساتھ اس کا برتاؤ ویساہی رہا تھا ........اگر وہ
خود اتناے نہ بگڑتی اور اسے اٹھتے بیٹھتے طعنے نہ دیتن یتو شایدبات یہاں تک نہ
پہنچتی ........وہ اسے کتنے پیار سے بھیچتا تھا ........لیکن وہ لمبے منہ پر ہڈیاں
نکلی ہوئی ، سوکھی جیسے لکڑی ہو ........اور فراک پہننے کا بڑا شوق تھا آپ کو ، بڑی
میم صاحب بنتی تھیں ۔ چار حرف انگریزی کے آگئے تھے تو زمین پرقدم نہ رکھتی تھی مارے
شیخی کے........نہ معلوم ایسی کیا چیز لگی ہوئی تھی اس میں جو وہ ایسا لٹو ہوگیا
تھا ........اس نے خواہ مخواہ فکر کی وہ خود اسے تھک کر چھوڑ دیتا ........وہ اسے
تھوڑے دن یونہی چلنے دیتی تو کیا تھا ........مگر اس نے کیسی بے رحمی سے اسے مارا
تھا ........ہاں ........ایک دفعہ مار ہی لیا تو کیا ہوگیا ۔وہ خود بھی شرمندہ
معلوم ہوتا تھا اور اس کے سامنے نہ آتا تھا ........اوراگر ڈینا اسے اتنا نہ بہکاتی
تو وہ شاید طلاق بھی نہ لیتی ۔بس وہ اپنا ذرا مزالینے کو اسے اکساتی رہی ........یہ
اچھی دوستی ہے ........اب وہ ڈینا سے نہیں بولے گی ، اور اگر وہ ملے گی بھی تو وہ
منہ پھیر کر دوسری طرف چل دے گی اور جوڈینا اس سے بولی تو وہ صاف کہہ دے گی کہ وہ
دھوکا دینے والوں سے نہیں بولنا چاہتی ........ڈینا بگڑ جائے گی تو بگڑا کرے ۔ اب
وہ شہرکے ہسپتال سے چلی ہی آئی ، اب کوئی روز کا کام کاج تو ہے نہیں کہ بولنا ہی
پڑے ....
وہ اسی طرح ڈینا کی مکاری پر پیچ و تاب کھاتی رہتی ، اگر نصیبن اسے نہ پکارتی ۔”اجی
مہم صاحب اٹھو ، سورج نکل آیا ۔ “ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی اورچاروں طرف دیکھا اب تو
واقعی اسے چلنا چاہیے تھا مگر پھر بھی پلنگ سے نیچے اترنے سے پہلے اس نے کئی مرتبہ
انگڑائیاں لیں اور تکیہ پرسر رگڑا۔
|