|
حرام جادی
(محمد حسن عسکری)
وہ منہ دھوکر چائے کے انتظار میں پھر بستر پر آ بیٹھی ۔ نسیبن لکڑیوں کو چولہے میں
ٹھیک کرتی ہوئی بولی ۔ ” وہ منیاین کہہ رہی تھیں کہ تمہاری میم صاحب تو عید کا چاند
ہوگئیں ۔ کبھی آکے بھی نہیں جھانکتی ....اجی ہو ہی آؤ ان کی طرف میم صاحب کسی دن
بڑا یاد کریں ہیں تمہیں !“
ہوہی آئے ان کی طرف........کیا کرے وہ جاکر میلے کچیلے پلنگوں پر بیٹھنا پڑتا ہے ۔
ٹوٹے ٹاٹے ........یہاں کی عورتوں سے وہ کیا باتیں کرے ؟ بس انہیںتو توقصے سناتے
جاؤکہ اس کے بچہ مرا ہوا پیدا ہوا ۔ اس کو اتنی تکلیف ہوئی ۔ اس کو ایسی بیماری
تھی ۔وہ کہاں تک لائے ایسے قصے سنانے کو ،اور کوئی بات تو جیسے آتی ہی نہیں انہیں
....اور پھر یہ لوگ کتنی بدتمیز ہیں ۔ سڑے ہوئے کپڑے لے کر سرپر چڑھی جاتی ہیں
....اسے ان لوگوں کے ہاتھ کاپان کھاتے ہوئے کتنی گھن آتی ہے مگر مجبوراً کھاناہی
پڑتا ہے ....جب وہ اس سے باتیں کرتی ہیں تو ہلکے ہلکے مسکراتے جاتی ہیں جیسے اس کا
مذاق اڑا رہی ہوں .... کن آنکھوں سے ایک دوسرے کواور سارے گھر کو دیکھتی جاعتی ہیں
گویا وہ چور ہے اور ان کی آنکھ بچتے ہی کوئی چیز اڑا دے گی ........یہ اس سے سب
عورتیں جھجکتی کیوں ہیں ؟ کیا وہ ان کی طرح عورت نہیں ہے ؟ یا وہ وہ کوئی ہوا ہے
........عجیب بے وقوف ہیں یہ عورتیں ........اور ہاں جب وہ ان کے ہاں جاتی ہے ۔
توان کے اشارے سے جو ان لڑکیاں جلدی جلدی بھاگ کر کمرے میں چھپ جاتی ہیں ۔ وہ اندر
سے جھانک جھانک کر اسے دیکھتی ہین اور اگر کہیں اس کی نظر پرجائے تو وہ فوراً ہٹ
جاتی ہیں اوراندر سے ہنسنے کی آواز آتی ہی اوراگرانہیں اس کے سامنے آنا ہی پڑ جائے
تو وہ بدن چراتی ہوئی اوپر سے نیچے تک خوب دوپٹہ تانے ہوئے آتی ہیں ۔جیسے اس کی نظر
ان میں سے کچھ چھٹالے گی یا اس کی نگاہ پڑجانے سے ان میں کوئی گندگی لگ جائے گی
........ان کی یہ حرکت اسے بالکل نہ پسند ہے ۔ کیا انہیں اس پر اعتماد نہیں،اور وہ
اس پر شک کرتی ہیں ........؟اس سےتو ان کے ہاےں نہ جانا ہی اچھا ........بیٹھیںاپنی
لڑکیوں کو لے کر اپنے گھر میں ........اور وہ گندے بچے ، مٹی سے سنے ، ناک بہتی ،
آدھے ننگے ، پیٹ نکلا ہوا ، وہ سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اوراسے ایسے غور سے
دیکھتے رہتے ہیں ، جیسے وہ نیا پکڑا ہوا عجیب و غریب جانور ہے ........اور جب وہ ان
سے بولتی ہے تو وہ سیدھے باہر بھاگ جاتے ہیں ........وہشی ہیں بالکل ، جانور
....بالکل .... اور یہ خوب ہے کہ اس کے پہنچتے ہی وہاں جھاڑو شروع ہوجاتی ہے ۔ مارے
گرد کے سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے ۔ ذرا خیال نہیں تندرستی کا انہیں ، اور کوئی کیوں
ان کے ہاں جاکربیماری مول لے اوران کے مرد ، کتنی شرم آتی ہے اسے ان حرکتوں سے ۔وہ
ہمیشہ ڈیوڑھی میں راستہ گھیرے بیٹھے رہتے ہیں اورجب تک وہ بالکل قریب نہ پہنچ جائے
نہیں ہٹتے ........”ارے حقہ ہٹاؤ ، حقہ ہٹاؤ “اٹھتے اٹھتے ہی اتنی دیر لگا دیتے
ہیں کہ وہ گھبراجاتی ہے ........جان کے کرتے ہوں گے یہ ایسی باتیں ........تاکہ
کھڑی رہے وہ تھوڑی دیر وہاں ........اور جب وہ اندر پہنچ جاتی ہے تو اسے قہقہوں کی
آواز آتی ہے ۔ عجیب بد تمیز ہیں ........انگریزوں کے ہاں کتنی عزت ہوتی ہے عورتوں
کی ۔ وہ بڈھے پادری صاحب جو آیا کرتے تھے ۔ بہت اچھے آدمی تھے بیچارے ، ہرایک سے
کوئی نہ کوئی نہ بات ضرور کرتے تھے ، بلکہ اسے تو وہ پہنچان گئے تھے ۔ سب مل کر
جایا کرتے تھے اتوار کو گر جا ........وہ خود ، ڈینا ، کٹی ، میری ، شیلا اور ہاں
مرسی ........مسزجیمس کا کتنا مذا اڑاتے تھے سب مل کر ........سب سے پیچھے چلتی
تھیں ، چھتری ہاتھ میں لئے ہانپتی ہوئی اوران میں تھا ہی کیا ۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ
تھیں بس ........اور گرجا سے لوٹتے ہوئے تو اور بھی مڑا آتا تھا ۔ سب چلتے تھے ،آپس
ہنستے ، مذاق کرتے ........افوہ ، شیلا کس قدر ہنسوڑ تھی ، کیسے کیسے منہ بناتی تھی
۔ جب ہنسنے پر آتی تھی تو رکنے کا نام نہ لیتی تھی ....مگر یہاں وہ سب باتیں کہاں
........اب تو جیسے وہ آدمیوں میںرہتی ہی نہیں ........اور واقعی کیا آدمی ہیں یہاں
والے ؟ اول تو اسے اتنی فرصت ہی کہا ملتی ہے ۔ ہر وقت پاؤں میں چکررہتا ہے ، اور
پھر ایسوںسے کوئی کیا ملے ؟........جیسے جانور ........نہ کوئی بات کرنے کو ،نہ
کوئی ذرا ہنسنے بولنے کو ، بس آؤ
اور پڑ رہو ........ لے دے کے رہ گئی نسیبن ، تو اسے اس کے سواکوئی بات ہی نہیں آتی
کہ اس کا بیٹا بھاگ گیا ، اس کی اپنے میاں سے لڑائی ہوگئی ۔ اس کے یہاں برات بڑی
دھوم دھام سے آئی ........اسے کیا ان باتوں سے ہوا کرے ، اس سے مطلب ........یابہت
ہوا تو اسے خواہ مخواہ ڈراتی رہے گی چوروں کے قصے سنا سنا کر ........ایک دفعہ اس
نے سنایا تھا کہ ایک دوسرے قصبے کی مڈوائف کو کچھ لوگ کیسے بہکا کرلے گئے تھے۔
|