|
حرام جادی
(محمد حسن عسکری)
اور اس کے ساتھ کیسا سلوک کای تھا........بکتی ہے
بھلا کہیں یوں بھی ہوا ہے ۔ لیکن اگر کہیں اس کے ساتھ ........مگر نہیں ،بیکار کا
ڈر ہے ، ........جو یوں ہوا کرے تو لوگ گھر سے نکلنا چھوڑدیں ........بھلا دنیا کا
کام کیسے چلے ........پاگل ہے بڑھیا ،بہکادیا ہے کسی نے اسے ........مگر ایسی جگہ
کا کیااعتبار ، نہ معلوم کیا ہوگیا نہ ہو ۔ کوئی ساتھ بھی تو نہیں ........اگر وہ
مڈ وائف نہ بنتی تو اچھا تھا اور وہ تو خود ٹیچر بننا چاہتی تھی بلکہ پاپا بھی یہی
چاہتے تھے مگرماما ہی کسی طرح راضی نہ ہوئیں ........کتنے دن ہوگئے پاپا کوبھی مرے
ہوئے ........بارہ سال ، کتنا زمانہ گزر گیا اور معلوم ہوتا ہے جیسے کل کی بات ہو
........کتنا پیارکرتے تھے وہ اسے ........روزاسکول پہنچانے جاتے تھے ساتھ
........کلاس میں اس کی سیٹ میز کے پاس تھی ........اور وہ انگریزی کے ماسٹر صاحب
بہت اچھے آدمی تھے ........بے چارے ، چاہے وہ کام کرکے نہ لے جائے ، مگر کبھی کچھ
نہیں کہتے تھے ........اور لڑکے تو نہ جانے اسے کیا سمجھتے تھے ۔ سارے اسکول میں وہ
اکیلی ہی لڑکی تھی نا ، سب کے سب ماسٹر صاحب کی نظریں بچا بچا کر اس کی طرف دیکھتے
رہتے تھے ........ارے وہموٹا کرم چند ، بھلاوہ بھی تو اس کی طرف دیکھتا تھا جیسے وہ
بڑا خوبصورت سمجھتی تھی اسے ........اور ہاں وہ عظیم ! یاد بھولا تھا ۔ بیچارا ،
سوکھا سا زرد ، مگر آنکھیں بڑی بڑی تھیں اس کی ۔دیکھتا تو وہ بھی رہتا تھا اس کی
طرف ، مگر جب کبھی وہ اسے دیکھ لیتی تھی تو وہ فوراً شرما کر نظریں نیچی کرلیتا تھا
۔ اور رومال نکال کر منہ پونچھنے لگتا تھا ........اور اس دن وہ دل میں کتنا ہنسی
تھی ۔ اس دن وہ اتفاق سے جلدی آگئی تھی ۔ برآمدہ میں دوسری وہ آرہا تھا ، جب وہ
قریب آیا تو اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اورگھبرا گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگا ۔ اس کے
پاس پہنچ کر وہ رک گیا اور کچھ کہنے سا لگا ، ڈرتے ڈرتے عظیم نے اس کا ہاتھ
پکڑلیااور پھر جلدی سے چھوڑ دیا ، اسے گھبرایا ہوا دیکھ کر وہ خود پریشان ہوگیا تھا
، اور اس نے بہت گڑ گڑا کر کہا تھا ۔ ”کہے گا نہیں ۔“وہ کتنے دن اس بات کو یاد کرکے
ہنستی رہی تھی ........کتنا سیدھا تھا واقعی وہ ........وہ ابھی اسکول ہی میں رہتی
تو کتنا مزارہتا ........مگر ........وہ زمانہ تو اب گیا ........اب تو وہ یہاں
دنیا سے الگ پڑی ہے ۔ کوئی بات تک کرنے کو نہیں ........کسی کا خط بھی جواب وہی
”نہیں “........اور جو آیا بھی تو بس وہی لمبے بادامی لفافے ........آن ہنر میجسٹیز
سروس ........ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی ہدایتیں ، یوں کرو اوردوں کرو ....کوئی اس کی
مانے بھی وج وہ یوں کرے ........خواہ مخواہ کی آفت ........اور پھر خط آئے بھی کہاں
سے ،؟ ........اگر آنٹی ہی دلی سے خط بھیج دیا کریں تو کیا ہے ........مگر وہ تو
برسوں بھی خبر نہیں لیتیں ........ایک دفعہ جانا چاہیے اسے دلی ........اچھا شہر ہے
........کیا چوڑی سڑکیں ہیں ........اور سنیما کس کثرت سے ہیں ........اور وہ
............وہ خیر ہے ہی ........مگر ہو ............
کائیں ، کائیں ، کائیں نے اسے چونکا دیا ۔ دھوپ آدھی دیوار تک اتر آئی تھی ، کوا
زور زور سے چیخ رہا تھا اور وہ بستر پر پیر نیچے لٹکائے لیٹی تھی ۔ اسے جلدی جانا
تھا اور اس نے بے کار لیٹے لیٹے اتنی دیر لگا دی تھی ۔ وہ نسیبن پراپنا غصہ اتارنے
لگی کہ اس نے چائے کیوں نہیں لاکررکھی مگر وہ سمجھ رہی تھی کہ میم صاحب سورہی ہین
اور واقعی ، اس نے خیال کیا ۔ اس سے تو وہ اتنی دیر سوہی لیتی تو اچھا تھا ۔ بہر
حال اس نے بسیبن کو جلدی سے چائے لانے کو کہا ۔
اس نے دوبارہ منہ دھویا اورالٹی سیدھی چائے پینے کے بعد وہ کپڑے بدلنے چلی ۔ ٹرنگ
کھول کر وہ سوچنے لگی کہ کونسی ساڑھی پہنے ........سفید ، سرخ کناروں والی ۔ مگر
کیا روزروزایک ہی رنگ ........اور پھرسفید ساڑھی میلی کتنی جلدی ہوتی ہے ۔ اس کی
بہارتو بس ایک دن ہے ۔ اگلے دن کام کی نہیں رہتی ........نیلی ساڑھی نیچے سے چمک
رہی تھی ........اسے ہی کیوں نہ پہنے ؟ ........مگر اسے نیلی ساڑھی پہنے دیکھ کر تو
لوگ اور بھی باؤلے
ہوجائیں گے ........وہ جدھر سے نکلتی ہے سب کے سب اسے گھورنے لگتے ہیں ۔اسے بڑی بری
معلوم ہوتی ہے ان کی یہ عادت ........اور ان زمینداروں کو دیکھو ، بڑے شریف بنتے
ہیں ؟........خیر یہ تو جوکچھ ہے سوہے ، جب وہ آگے بڑھ جاتی ہے تو وہ ہنستے ہیں
........اور طرح طرح کے آوازے کہتے ہیں ........”کہویار!“........”ابے مجید ذرا
لیجو !“........کوئی کھانسنے لگتا ہے کیا وہ سمجھتی نہیں........ذرا شہر میں کرکے
دیکھتے ایسی باتیں ........وہ مزا چکھا دیتی انہیں ........مگر یہاں وہ کیا کرے ،
مجبور ہوجاتی ہے ۔
|