|
جینی
(شفیق الرّحمٰن)
ہوائی جہاز پر سوار ہوتے وقت مجھے کچھ شبہ ہوا۔ نیلے لباس والے لڑکی سے پوچھا تو اس
نے بھی اثبات میں سر ہلایا، جب ہم جہاز سے اترے تو مجھے یقین ہوگیا۔ اور میں نے
پائپ پیتے آکسفورڈ لہجے میں انگریزی بولتے ہوئے پائیلٹ کو دبوچ لیا۔ ہم مدتوں کے
بعد ملے تھے۔کالج میں دیر تک اکٹھے رہے ۔ کچھ عرصہ تک خط و کتابت بھی رہی۔ پھر ایک
دوسرے کے لئے معدوم ہو گئے۔ اتنے دنوں کے بعد اور اتنی دور اچانک ملاقات بڑی عجیب
سی معلوم ہو رہی تھی۔
طے ہوا کہ یہ شام کسی اچھی جگہ گزاری جائے اور بیتے دنوں کی یاد میں جشن منایاجائے۔
میںنے اپنا سفر ایک روز کے لئے ملتوی کردیا۔
جب باتیں ہو رہی تھیں تو میں نے دیکھا کہ وہ کافی حد تک بدل چکا تھا۔ مٹاپے نے اس
کے تیکھے خدو خال کو مبہم بنا دیا تھا ۔ اس کی آنکھوں کا وہ تحسین نگاہوں کی وہ بے
چینی، وہ ذہین گفتگو سب مفقود ہو چکے تھے وہ عامیانہ سی گفتگو کر رہا تھا۔ یوں
معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنی زندگی اور ماحول سے اس قدر مطمئن ہے کہ اس نے سوچنا
بالکل ترک کردیا ہے۔ دیر تک ہم پرانی باتیں دوہراتے رہے۔
سہ پہر کو وہ مجھے ایک اینگلو انڈین لڑکی کے ہاں لے گیا جسے وہ شام کو مدعو کرنا
چاہتا تھا۔ لڑکی نے بتایا کہ شام کا وقت وہ گرجے کے لئے وقف کر چکی ہے۔ ہم ایک اور
لڑکی کے ہاں گئے۔ اس نے بھی معذرت چاہی کیوں کہ اس کی طبیعت نا ساز تھی۔ پھر تیسری
کے گھر پہنچے اگرچہ دوسرے کمرے سے خوشبوئیں بھی آرہی تھیں اور کبھی کبھار آہٹ بھی
سنائی دے جاتی تھی لیکن دروازہ نہیں کھلا وہ ایک اور شناسا لڑکی کے ہاں جانا چاہتا
تھا لیکن میںنے منع کردیا تھا کہ کوئی ضرورت نہیں اور پھر اگر کوئی اور ساتھ ہوا تو
اچھی طرح باتیں نہ کر سکیں گے۔ واپس آکر اس نے ٹیلی فون پر کوشش کی تیسری لڑکی گھر
پہنچ چکی تھی لیکن شام کو اس کی امی اسے نانی جان کے ہاں لے جارہی تھی۔
شام ہوئی تو ہم وہاں کے سب سے بڑے ہوٹل میں گئے۔ رقص کا پرو گرام بھی تھا ۔ اس نے
پینا بھی شروع کردی ۔ میرے لئے بھی انڈیلی اور اصرار کرنے لگا۔ یہ اس کی پرانی عادت
تھی۔
میں نے گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے چھوا، کچھ دیر گلاس سے کھیلتا رہا پھر ٹہلتا ٹہلتا
دریچے تک گیا۔ ایک بڑے سے گملے میں انڈیل کر واپس آگیا اس نے دوسری مرتبہ انڈیلی
مجھے بھی دی میں پھر اٹھا اور اپنا حصہ کھڑکی سے باہر پھینک آیا۔
وہ اپنی روزانہ زندگی کی باتیں سنا رہا تھا کمپنی کی لڑکیوں کے متعلق جو نہایت طوطا
چشم تھیں۔ شراب کے متعلق جو دن بدن مہنگی ہو تی جا رہی تھی۔ اپنے معاشقوں کے متعلق
جو اسے بے حد پریشان رکھتے تھے۔ اس کی بیوی بھی اسی شہر میں رہتی تھی لیکن وہ اسے
مہینوں نہ ملتا جب کبھی بھولے سے گھر جاتا تو اتنے سوال پوچھتی کہ عاجز آجاتا اتنا
نہیں سمجھتی کہ ایک ہوا باز کی زندگی کس قدر خطر ناک زندگی ہے۔ اگرچہ یہ اس نے خود
منتخب کی تھی۔
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ واقعتا ہم نے اس لڑکی کو رقص گاہ میں دیکھا جسے اس وقت
گرجے میں ہونا چاہیے تھا وہ ایک لڑکے کے ساتھ آئی ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ لڑکی آگئی
جس کی طبیعت نا ساز تھی پھر معلوم ہوا کہ تیسری لڑکی بھی ہمارے سامنے رقص کر رہی ہے
اپنی امی یا نانی جان کے ساتھ نہیں، ایک دوسرے ہواباز کے ساتھ۔
وہ اپنی قسمت کو کوسنے لگا نہ جانے یہ لڑکیاں ہمیشہ اسی کو کیوں دھوکہ دیتی ہیں۔
|