|
جینی
(شفیق الرّحمٰن)
ہمیشہ ٹرخا دیتی ہیں آج تک کسی لڑکی نے اسے دل سے نہیں چاہا۔ یہ اس کی زندگی کی سب
سے بڑی ٹریجڈی ہے۔
وہ گلاس پر گلاس خالی کئے جارہا تھا۔ میرے حصے کی ساری شراب گملوں اور پودوں کو
سیراب کر رہی تھی۔ اسے حیرت تھی کہ مجھ جیسا لڑکا جو کالج کے دنوں میں باقاعدہ
سگریٹ بھی نہ پیتا تھا اب ایسا شرابی ہو گیا کہ اتنی پی چکنے کے بعد بھی ہوش میں
ہے۔ اس کے خیال میں ایسے شخص کو پلانا قیمتی شراب کا ستیا نا س کرنا تھا۔
پھر ان اجنبی چہروں میں ایک جا نا پہچانا مانوس چہرہ دکھا ئی دیا۔ یہ جینی تھی۔ جو
رقص کا لباس پہنے ایک ادھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ ابھی ابھی آئی تھی۔ ہم دونوں اٹھے
ہمیں دیکھ کر جینی کا مسکرتا ہوا چہرہ کھل گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملی تعارف ہوا....
میرے خاوند سے ملئے.... اور یہ دونوں میرے پرانے دوست ہیں....
میں نے ہاتھ ملاتے وقت اس کے خاوند کو مبارک باد دی.... اور کہا کہ وہ دنیا کا سب
سے خوش نصیب انسان ہے۔
میں نے اسے غور سے دیکھا وہ چالیس سے اوپر کا ہوگا۔ اچھا خاصا سیاہ رنگ، دھندلی
تھکی تھکی آنکھیں، بے حد معمولی شکل پستہ قد، اگر وہ جینی کا خاوند نہ ہوتا تو شاید
ہم اس کی طرف دوسری مرتبہ نہ دیکھتے۔ لیکن جینی کی مسکراتی ہوئی آنکھیں اس کے سوا
اور کسی کی طرف دیکھتی ہی نہ تھیں۔ وہ اس کی تعریفیں کر رہی تھی کہ وہ قریب کی
بندرگاہ کا سب سے بڑا بیرسٹر ہے۔ اس علاقے میں سب سے مشہور شخص ہے۔ میں نے جینی کو
رقص کے لئے کہا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ بے حد مسرور ہے۔ اس قدر مسرور شاید میں نے
اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔ اس کے چہرے کی چمک دمک ویسی ہی ہے اس کے ہونٹوں کی وہ
دلآویز اور مخمور مسکراہٹ جوں کی توں ہے۔ وہ مسکراہٹ جو اس قدر مشہور تھی جسے مونا
لزا کی مسکراہٹ سے تشبیہ دی جاتی تھی....نہایت پر اسرار اورنا فہم مسکراہٹ۔ جس کی
گہرائیوں کا کسی کو علم نہ ہو سکا۔ جو ہمیشہ راز رہی۔
اور یہی مسکراہٹ میں نے سالہاسال سے دیکھی تھی۔ اس مسکراہٹ سے میں مدتوں سے شناسا
رہا۔ جینی کے خاوند کے دوست آگئے اور مقامی باتیں ہونے لگیں۔ کچھ دیر کے بعد میں
اور میرا دوست اٹھ کر واپس اپنی جگہ چلے آئے، جہاں بوتل اس کی منتظر تھی۔
میںنے اسے جینی کے متعلق باتیں کرنا چاہیں لیکن اس نے جیسے سنا ہی نہیں۔ وہ ان تین
لڑکیوں کے لئے اداس تھا جو اسے دھوکہ دے کر دوسروں کے ساتھ چلی آئیں۔ آج یہ پہلی
مرتبہ ایسا نہیں ہوا پہلے بھی کئی بار ہو چکا تھا اور لڑکیاں اجنبی نہیں تھیں،
پرانی دوست تھیں اس کے ساتھ باہر جا چکی تھیں۔ اس سے بیش قیمت تحائف لے چکی تھیں۔
دراصل اب ایسی ٹھوکریں اسے ہر طرف سے لگ رہی تھیں، ایس، برج، سٹاہر جگہ وہ ہار رہا
تھا۔ایک ادنے فلم کمپنی کی اکسٹرا لڑکی جس کے لئے اس نے سمندر کے کنارے مکان لیا
اسے چھوڑ کرکسی بوڑھے سیٹھ کے ساتھ چلی گئی۔ اور میں دزدیدہ نگاہوں سے اس طرف دیکھ
رہا تھا جہاں جینی تھی۔وفور مسرت سے اس کا چہرہ جگمگا رہا تھا اس کی آنکھیں روشن
تھیں۔ وہی آنکھیں جو کبھی غمگین اور نم ناک رہا کرتیں اب مسرور تھیں۔ رخسار جن پر
مدتوں آنسوؤں کی کی لڑیاں ٹوٹ کر بکھرتی رہیں اب تاباں تھے۔ وہ کھلی ہوئی مسکراہٹ
شاہد تھی کہ دل سے اس شدید الم کا احساس جا چکا ہے جو جینی کی قسمت بن چکا تھا۔ اس
خوشی میں اب غم کی رمق تک نہیں دکھائی دیتی تھی۔
لیکن اتنی زائد مسرت کیسی تھی؟ یہ انبساط کیسا تھا؟ اور اس پر اسرار مسکراہٹ کے
پیچھے کیا تھا؟
میں صرف اس کے چہرے کو دیکھ سکتا تھا۔ اس کی روح بہت دور تھی۔ وہاں تک میری نگاہیں
نہیں پہنچ سکتی تھیں کیا وہاں کوئی عظیم طوفان بپا تھا؟ اذیت کن، کرب ناک شدید
تلاطم یا جلتے ہوئے شعلوں کی تپش نے بہت کچھ بھسم کردیا تھا؟ یا وہاں سب کچھ یخ ہو
چکا تھا؟ برف کے تودوں کے سوا کچھ بھی نہ رہا تھا؟
اس کا جواب میں نے اس کی مسکراہٹ سے مانگا۔
وہ لگاتار اپنے خاوند کے ساتھ رقص کرتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کئی
مرتبہ وہ بالکل قریب سے گزرے۔
|