|
جینی
(شفیق الرّحمٰن)
اس نے میری طرف دیکھا اور مسکرائی پھر جیسے وہ مسکراہٹ
پھیلتی چلی گئی۔ اس نے ماضی اور حال کی حدوں کو محیط کرلیا۔ وہ سب تصویریں سامنے
آنے لگیں جو ذہن کے تاریک گوشوں میں مدفون تھیں۔
میں نے برسوں پہلے آپ کو یونیورسٹی کے مباحثے میں دیکھا۔ میرے ساتھ میرا پرانا دوست
رفیق اور ہم جماعت جی بی تھا۔ وہ ان دنوں بہترین مقرر تھا۔ سٹیج پر ہمیشہ فاتح کی
طرح جاتا اور فاتح کی طرح لوٹتا۔ اس کی تقریر ختم ہوئی تو ایک لڑکی سٹیج پر آئی۔
گھنگھریالے بال ، جھکی ہوئی آنکھیں،لبوں پر محجوب مسکراہٹ، ملا جلا انگریزی لباس
پہنے۔
ہال میں سرگوشیاں ہونے لگیں، ہمیں بتایا گیا کہ یہ نئی نئی کہیں سے آئی ہے ۔ اس کا
نام کچھ اور ہے لیکن اسے لیلےٰ کہتے ہیں۔ شاید اس کی ملیح رنگت اور گھنگھریالی
پریشان زلفوں کی وجہ سے۔
کچھ دیر وہ شرماتی رہی، بول ہی نہ سکی، پھر ذرا سنبھل کر اس نے جی بی کی تقریر کی
مخالفت شروع کی ایسے ایسے نکتے لائی کہ سب حیران رہ گئے۔ جی بی کی تقریر بالکل بے
معنی معلوم ہونے لگی۔
جب وہ سٹیج سے اتری سے دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ پھر معلوم ہوا کہ پہلا انعام جی بی
اور اس لڑکی میں تقسیم کیا جائے گا لیکن جی بی نے ججوں سے درخواست کی کہ انعام کی
وہی حقدار ہے اور اسی کو ملنا چاہیے۔ جی بی کے رویے کو سراہا گیا۔ ہجوم میں ہیجان
پھیل گیا۔ مدتوں کے بعد ایک لڑکی پہلا انعام جیت رہی تھی، وہ بھی ایسی لڑکی جو
بالکل نو وارد تھی۔
جب لیلیٰ اسٹیج پر چاندی کا بڑا سا وزنی کپ لینے آئی تو اس کی پریشان زلفیں اور
پریشان ہوگئیں۔ نگاہیں جھک گئیں۔ جب اس سے اتنا بڑا کپ نہ سنبھالا گیا، تو جی بی نے
لپک کر چوبی حصہ خود اٹھا لیا۔ لیلیٰ نے جی بی کو جھکی ہوئی نگاہوں سے ایک مرتبہ
دیکھا۔
اس بھولی بھالی الہڑ لڑکی سے ہمارا تعارف یوں ہوا۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا تانتا
بندھ گیا۔ جی بی کالج کا ہیرو تھا۔ لڑکو ں اور استادوں میں ہر دلعزیز کالج میں سب
سے ذہین، چست، ہنس مکھ اور خوش پوشاک۔ بڑے امیر والدین کا اکلوتا بیٹا۔ اس کی کار
پروفیسروں کی کاروں سے بھی بڑھیا تھی۔ جہاں بھی ادبی تقریب ہوتی مجھے اور بی جی کو
مدعو کیاجاتا۔ ہمارے کہے پر لیلیٰ کو بھی بلایا جاتا.... لیلیٰ کے خدو خال حسین
نہیں تھے۔ اگر اسے نقادانہ طور سے دیکھا جاتا تو وہ حسین ہر گز نہیں تھی....لیکن
اگر حسین خدو خال کے بغیر بھی کوئی خوبصورت ہو سکتا ہے تو وہ لیلیٰ تھی۔ اس لہراتی
ہوئی زلفیں، جھکی ہوئی شرمیلی آنکھیں، مسکراتے ہوئیے ننھے منے ہونٹ ملیح چمپئی
رنگت۔ اور نہایت معصوم باتیں.... سب مل کر نرالی جاذبیت پیدا کردیتے۔ بعض اوقات تو
وہ بے حد پیاری معلوم ہوتی ۔
وہ ہوسٹل میں رہتی تھی، سب سے الگ تھلگ۔ کبھی ہم نے اسے کسی کے ساتھ نہیں دیکھا۔ اس
کے والدین کے متعلق طرح طرح کی افواہیں سننے میں آتیں ان کے خاندان میں انگریزی اور
پرتگالی خون کی آمیزش تھی۔ اس کی والدہ جنوبی ہندوستان کی تھی۔ اس لئے نہ ان کا
کوئی خاص مذہب تھا نہ کوئی نسل۔ لیلیٰ کا نام بھی عجیب تھا، اس کا لباس بھی ملا جلا
ہوتا وہ اپنے والدین کے ذکر سے احتراز کرتی۔ یہ مشہور تھا کہ ان کی خانگی زندگی
نہایت نا خوشگوار ہے۔ وہ ہمیشہ جدا رہتے ہیں ایک دفعہ ان کا تنازعہ عدالت میں پہنچ
چکا ہے۔
پھر کسی نے یونہی کہہ دیا کہ لیلیٰ بی جی کی طرف دیکھتی رہتی ہے۔ یہ افواہ بنی، پھر
عام ہوگئی۔ ہر جگہ اس نئے معاشقے پر تبصرے ہونے لگے۔ سب نے دیکھا کہ لیلیٰ کے دل کا
راز عیاں ہو چکا تھا وہ بی جی کو چاہتی ہے طرح طرح کے بہانوں سے وہ اسے ملتی۔ جانے
پہچانے راستوں سے ایسے گزرتی کہ بی جی نظر آجاتا ۔ بی جی کو دیکھ کر اسے دنیا بھر
کی نعمتیں مل جاتیں۔ یہ نو زائیدہ محبت اس کی زندگی میں طرح طرح کی تبدیلیاں لے
آئی۔ وہ مسرور رہنے لگی۔ادبی سر گرمیوں میں نمایاں حصہ لینے لگی۔ اس کا اجنبی لہجہ
درست ہو تا گیا۔ اس کی گفتگو میں مٹھا س آگئی۔
لیکن جی بی کچھ اتنا متاثر نہیں ہوا۔ اس کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کتنی ہی
مرتبہ اسے محبت خراج کے طور ملی تھی۔۔
|