|
.
اوراُسے سلام کرے ہندوجاٹیوں میں دُوکان کی چوکھٹ کو آج بھی چوما جاتا ہے اورگھرکی چوکھٹ کو سلام کیا جاتا ہے۔ صوفیوں کی خانقاہوں کے ساتھ یہ رویہ عام مسلمانو ںمیں بھی موجود ہے جولوگ اُس کی پرواہ نہیں کرتے اُن کے لئے کہاجا تا ہے کہ وہ کبھی دہلیز بھی نہیںجھانکتے یعنی کبھی آکر بھی نہیں پھٹکتے اس کے مقابلہ میں جو آدمی بے غیرتی کے ساتھ کسی کے دروازے پر پڑارہتا ہے اس کودہلیز کا کتّا کہتے ہیں اب اس لفظ کا استعمال ہمارے یہاں کم ہوگیا ہے ۔ گاؤں والے اپنے تلفظ کے مطابق اس کو دہلیج کہتے ہیں۔
(۴۱) دہلی کے لیولے ڈالنا، یالے ڈالنا۔
اسی طرح وہ آدمی جواپنی غرض کے لئے کسی کے دروازے کے چکرلگا تا رہتا ہے اس کے لئے کہتے ہیںکہ وہ دہلیز کے لیولے لے ڈالتاہے ’’لیوڑ‘‘ دراصل بدن یازمین پر الگ سے جومٹی یا میل کچیل جم جاتا ہے تواُسے لیورکہتے ہیں اوریہاں لیوڑے لینے کے معنی اُسی کو ہٹادینے کے ہیں۔ ہمارے جغرافیائی حالات کا اثرہماری سوچ پرکس طرح مرتب ہوتا ہے اورہماری جومعاشی اورمعاشرتی زندگی ہوتی ہے اِس سے ہماری فِکر اورہماری زبان کس طرح کے اثرات قبول کرتی ہے۔
(۴۲) دُھوم ڈالنا، دُھوم مچانا، دُھوم ہونا۔
دُھوم دُھوم دَھام حواشی سے تعلق رکھنے والی لفظیات میں سے ہے اسی لئے دُھوم مچانا خوشی کے ساتھ آوازیں نکالنے کو بھی کہتے ہیں کسی اچھی خبر کی شہرت کو بھی کہ اُس کی دُھوم مچ گئی سارے شہرمیں دُھوم مچ رہی ہے دُھوم دُھام ہورہی ہے یعنی خوشیوں کا ماحول ہے ۔ باجے تاشے بج رہے ہیں زمینداروں جاگیرداروں بڑے بڑے ساہوکاروں بادشاہوں اورنوابوں کے یہاں جب خوشی کے جشن منائے جاتے تھے توعام طورپر سارے شہریا علاقے میں دُھوم دَھام کا ماحول ہوتا تھا۔ اِن لفظوں سے بنے ہوئے محاورات کے ذریعہ ہم ماضی میںگزاری جانیوالی اپنی معاشرتی اورتاریخی زندگی کے کچھ پہلوؤں سے واقف ہوتے ہیں اورآج بھی یہ صورتِ حال ہوتی ہے تواُس سے لطف لیتے ہیں اوراُس کا ذکر اچھا لگتا ہے۔
(۴۳)دُھونس دینا، دُھونس میں آنا، دُھونس کی چلنا۔
دُھونس دیہاتی زبان میں نقّارے کوکہتے ہیں اورنقارہ شہرت واقتدار اورانتظام کی ایک علامت کے اعلان کے بھی ہیں اسی لئے نوبت ونشان بادشاہی حکومت کی نشانیاں ہوتی ہیں۔نوبت نقارہ ہی کوکہتے ہیں۔ یہاں سے گزرکر دھونس ایک نئے معنی اورنئے پس منظر کے ساتھ ہمارے محاورہ میں استعمال ہوتا ہے اورجب ہم دھونس دینا کہتے ہیں تواُس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی شخص زبردستی اپنی بات منوانا چاہتا ہے اوراپنی بات کا پریشر ڈالنا چاہتا ہے۔ دیہات والے بھی دھونس دینے کواسی معنی میں استعمال کرتے ہیں شہرکے عام لوگوں کی زبان پربھی یہ محاورہ اسی معنی میں آتا ہے اوراُس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سماج میں اچھے بُرے لوگوں کا رویہ کیا کیا شکلیں اختیار کرتا ہے تودھونس دینا دھونس نہیں لینا یا دھونس میں آجانا انہی سماجی رویوں اور ُان کے اثرات کی طرف اشارہ ہے۔
(۴۴)دھینگادھینگی کرنا۔
دھینگامُشتی کرنے کوبھی کہتے ہیں اوریہ اسی طرح کا ایک عمل ہے جیسے دھول دھےّاکرنا جوعام لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ ذراذرا سی بات پر لڑنے جھگڑنے کے لئے تیا رہوجاتے ہیں ۔ یہاں ہم ایک بار پھراس طرف توجہ دینے پر مجبور ہوتے ہیں کہ محاورات دراصل ہمارے سماج کے رویوں کا مطالعہ ہے کیونکہ وہ عام زبان میں ہے اورعوامی بولی ٹھولی کا حصّہ ہے اس لئے اس کا احساس نہیں ہوتا کہ ہمارے سماجی رویوں کے کون کون سے پہلو ایسے ہیں جوہمارے محاورے جن پر روشنی ڈالتے ہیں اور Comment کرتے ہیں۔۔
|